لاہور (ویب ڈیسک) تحریک انصاف کی حکومت کو ایک سال مکمل ہو گیا۔سال پہلے ’’اک نجومی نے کہا تھا کہ یہ سال اچھا ہے‘‘ جبکہ نجومی ویسا ہی تھا جیسے ہمارے ٹی وی چینلز پر پائے جاتے ہیں۔ سال پورا ہونے پر حکومت اور اپوزیشن، دونوں کو ’’حال‘‘ پڑا اور چڑھا ہوا ہے۔ نامور کالم نگار حسن نثار اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دونوں کی ’’دھمال‘‘ قابل دید ہے جو ہمیں چیخ چیخ کر ہمارا ’’اجتماعی کردار‘‘ یاد دلا رہی ہے، ایام کے آئینے میں ہمیں ہمارا ’’اجتماعی چہرہ‘‘ دکھا رہی ہے جسے کاسمیٹک سرجری کی شدید ضرورت ہے لیکن کوئی سرجن اس قابل نہیں کہ اس 72سالہ چہرے کی ڈینٹنگ پینٹنگ کر سکے۔حکومت کو اپنے اندر کوئی خامی ہی نظر نہیں آ رہی… ماشاء اللہ اپوزیشن کو حکومت میں کوئی خوبی ہی دکھائی نہیں دے رہی…استغفر اللہ حکومت اپنے قصیدے پڑھ رہی ہے۔اپوزیشن کو ہجو کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔حالانکہ حقیقت اور سچائی کہیں درمیان میں لٹک رہی ہے لیکن کیا کریں؟ میرٹ نامی کوئی شے نہ ہماری انفرادی زندگیوں میں ہے نہ ہماری اجتماعی زندگی میں کیونکہ ہمارے ہاں ’’ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں‘‘…’’ہم زندہ قوم ہیں‘‘ اور ’’اس پرچم کے سائے تلے سب ایک ہیں‘‘۔ ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘‘ جبکہ یہ صفت صرف ’’صف‘‘ تک محدود ہے لیکن دربار میں محمود تخت پر جلوہ افروز ہوتا ہے اور ایاز بیچارہ بہت نیچے بہت پیچھے سر جھکائے ہاتھ باندھے ابرو کے اشارے کا منتظر۔’’کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں‘‘سچ کیا ہے؟اپوزیشن نے لوٹا بہت تھا (جب حکومت میں تھی)حکومت نے حکومت بننے سے پہلے ہوم ورک کو ہاتھ نہیں لگایا۔تب کی حکومت ’’فلوس‘‘ بنانے میں لگی رہی اور آج کی حکومت نے تب جلسے جلوس کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ دونوں نے اپنی اپنی قسم کی جھک ماری اور آج دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پریشان… عوام ان دونوں سے دو گنا زیادہ پریشان۔ سر ڈھانپیں تو پائوں ننگے، پائوں ڈھکیں تو سر ننگا اور ان دونوں کو ڈھانپیں تو پاپی اور خالی پیٹ ننگا۔ پاکستان میں گنتی کے چند فیصد نارمل قسم کے پیٹ چھوڑ کر بھاری اکثریت دو قسم کے پیٹوں پر مشتمل ہے۔اول، وہ جو کبھی بھرتے ہی نہیں۔دوم ، وہ جو سبھی بھرتے ہی نہیں ۔کبھی نہ بھرنے والے پیٹوں کی دو اقسام ہیں۔اول، وہ جو اس لئے نہیں بھرتے کہ انہیں پیٹ بھرنے کے لئے ملتا ہی کچھ نہیں۔دوم، وہ VVIPقسم کے پیٹ جن کے اندر جتنا جاتا ہے، اسی تناسب سے ان کی بھوک میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے یعنی ایک ارب ڈالر پیٹ میں گیا تو دو ارب ڈالر کی بھوک ستانے لگی، دو ارب ڈالر کھایا تو چار ارب ڈالر کے لئے پیٹ میں چوہے رقص کرنے لگے، انہیں چار ارب پیش کیا تو آٹھ ارب ڈالر کے لئے ادھم مچانے لگے علیٰ ہذا القیاس۔مالتھس کی تھیوری آف پاپولیشن کے مطابق آبادی 1سے 2,2سے 4,4سے 8,8سے 16,16سے 32,32سے 64اور 64سے 128کے حساب سے بڑھتی ہے۔ ہمارے VVIPپیٹوں کی بھوک بھی آبادی کی رفتار سے بڑھتی ہے۔ یہ سر تا پا شکم ہی شکم ہیں اور ایسے ہر شکم کی آگ مسلسل بڑھتی اور بھڑکتی رہتی ہے جسے بجھانے کے لئے دنیا بھر کے ین، ڈالر، پائونڈ، ریال اور درہم بھی ناکافی ہیں سو جتنی کرنسیاں ڈالو، آگ اتنی ہی پھیلتی چلی جاتی ہے اور جناب سپیکر! یہ ہیں وہ منتخب اور جمہوری پیٹ جن کے بارے بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہ وہ پیٹ ہیں جنہیں صرف اور صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔یہی پیٹ ملکی معیشت کھا گئے اور آج صف ماتم بچھائے زنجیر زنی بھی کر رہے ہیں اور یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی قاتل اپنے ہی مقتول کے جنازے میں شریک ہو کر سب سے زیادہ گریہ کرے اور مقتول کے ورثاء کی منتیں بھی کرے کہ اسے مقتول کے ساتھ ہی زندہ دفن کر دیا جائے کیونکہ وہ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔آج کی اپوزیشن کون ہے اور کیا ہے؟ نیچے سے اوپر چلتے ہیں جیسی جمہوریت ویسی اس کی جان حضرت مولانا فضل الرحمٰن جو قیام پاکستان سے پہلے ہی اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ غریب لوگ کمیٹیاں ڈالتے ہیں تو کبھی نہ کبھی ان کی ’’کمیٹی‘‘ نکل آتی ہے۔ کچھ کئے لئے دیئے بغیر مولانا فضل الرحمٰن کی ’’کشمیر کمیٹی‘‘ مسلسل نکلتی رہی اور جب ہاتھ سے نکل گئی، یہ آپے سے نکل گئے۔ ن لیگ کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہے اور یہاں تک کہ ان سوالوں کے جواب بھی موجود ہیں جو ان سے پوچھے بھی نہیں جاتے، صرف ان سوالوں کے جواب ندارد کہ بیرون ملک جائیدادیں اور ٹی ٹیاں کہاں سے آئیں؟ رہ گئی پیپلز پارٹی تو صرف سندھ دیکھ لو کہ سندھ کی صورتحال ہی ان کی اصل صورت ہے۔ سمٹتے سمٹتے اندرون سندھ تک سکڑ گئے لیکن آج بھی روٹی کپڑا مکان کی دکان کھلی ہے۔ واقعی اقتدار کا نشہ تمام نشوں کی ماں ہے بلکہ باپ ہے اور ’’چھٹتا نہیں ہےمنہ سے یہ کافر لگا ہوا‘‘ رہی ن لیگ تو یہ سرے سے سیاستدان تھے ہی نہیں۔ ان کے لئے سیاست حلوائی کی دکان تھی جس پر دادا نانا سب کی فاتحہ جائز تھی اور انہوں نےکسر بھی کوئی نہ چھوڑی۔ مختصراً یہ کہ یہ تینوں ایک ہی سکے کے ’’تین رخ‘‘ ہیں۔ن لیگ کا الزام ہے کہ ’’پی ٹی آئی کے پہلے سال میں مہنگائی، بے روزگاری اور قرضوں میں اضافہ ہوا۔ کوئی گھر بنا نہ کسی کو نوکری ملی‘‘۔ پہلے تین عذابوں کے لئے تو یہ خود ذمہ دار ہیں کہ جیسے پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے، اسی طرح قرضہ قرضے، مہنگائی مہنگائی کو اور بیروزگاری بیروزگاری کو مقناطیس کی طرح کھینچتی ہے۔ ریورس میں جاتی ملکی معیشت کو روک کر نیوٹرل کرنے کے بعد پہلے گیئر میں ڈالنا ہی مشکل ترین مرحلہ تھا جو خاصی حد تک مکمل ہو چکا اور یہی ان کا اصل رونا اور المیہ ہے۔ انہیں جیلوں مقدموں سے نہیں، اصل خوف ہی اس بات سے ہے کہ PTIکو وقت مل گیا تو ان کا سیاسی وقت مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔جہاں تک تعلق ہے PTIکا تو ان کے دو ’’جرائم‘‘ ہیں۔ پہلا یہ کہ انہوں نے ہوم ورک نہیں کیا اور دوسرا یہ کہ PTIنے کرپشن کرپشن کی گردان تو بہت کی ہے لیکن آج تک یہ لوگ ن لیگ اور پی پی پی کو ایکسپوز نہیں کر پائے۔ ان کی ساری مہم انتہائی تجریدی قسم کی تھی۔ ان کے دو کام قابل ذکر رہے پہلا اینٹی کرپشن ڈرائیو پر ڈٹے رہنا اور دوسرا گورننس کے کلچر میں تبدیلی کی شروعات۔جتنی لمبی چھلانگ اتنا ہی پیچھے ہٹنا پڑتا ہے، جتنا موذی اور پرانا مرض اتنا ہی تکلیف دہ اور صبر آزما علاج۔ PTIکا پہلا سال پہلا مرحلہ تھا جو مناسب انداز میں مکمل ہوا۔ مریض صحت یاب تو نہ ہو سکتا تھا نہ ہوا البتہ آئی سی یو سے ضرور نکل آیا۔ بیشک PTIنے کوئی توپ نہیں چلائی لیکن توپ بیچ کر منی لانڈرنگ بھی نہیں کی۔ معیشت کے بھانڈے کی ’’قلعی‘‘ تو نہیں ہو سکی لیکن اس کے سوراخ ضرور بند ہو گئے ہیں۔