لاہور(نیوز ڈیسک) سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ بدنیتی سے سازش جنم لیتی ہے لیکن نااہلی سے بحران جنم لیتا ہے۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت کی تقرری کا نوٹیفکیشن ایک سادہ سا معاملہ تھا جس میں صرف قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا تھی لیکن
اس نوٹیفکیشن کا اجرا ایک بہت بڑے آئینی بحران میں تبدیل ہوگیا اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس آئینی بحران کی وجہ صرف اور صرف نااہلی تھی۔تفصیلات کے مطابق اپنے کالم میں حامد میر لکھتے ہیں کہ بدنیتی سے سازش جنم لیتی ہے لیکن نااہلی سے بحران جنم لیتا ہے۔ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت ملازمت کی تقرری کا نوٹیفکیشن ایک سادہ سا معاملہ تھا جس میں صرف قواعد و ضوابط کی پابندی کرنا تھی لیکن اس نوٹیفکیشن کا اجرا ایک بہت بڑے آئینی بحران میں تبدیل ہوگیا اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس آئینی بحران کی وجہ صرف اور صرف نااہلی تھی، اس آئینی بحران نے صرف عمران خان کی حکومت کو نہیں بلکہ ریاستِ پاکستان کو پوری دنیا میں ایک تماشا بنا دیا۔ کیاعمران خان اور ان کے وزرا اس بحران کی ذمہ داری بھی ماضی کی حکومتوں پر عائد کریں گے؟
سپریم کورٹ نے 26نومبر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں کیس کی سماعت کے بعد جو آرڈر جاری کیا اس میں نوٹیفکیشن کے معاملے میں قانونی کمزوریوں اور خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی اور ان خامیوں کا جائزہ لیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم کے اردگرد نہ صرف قواعد و ضوابط سے نابلد سرکاری افسران بلکہ نااہل قانونی مشیروں کی بھرمار ہے۔جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے تھے لیکن وزیراعظم عمران خان نے انہیں مدتِ ملازمت میں توسیع لینے پر آمادہ کیا۔سپریم کورٹ نے اپنے 26نومبر 2019ء کے آرڈرمیں لکھا کہ وزیراعظم نے 19اگست 2019ء کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم خود ہی جاری کر دیا حالانکہ آئین پاکستان کی دفعہ 243کے تحت یہ اختیار صدرِ مملکت کا تھا۔جب غلطی سامنے آئی تو اسی دن وزیراعظم کی طرف سے صدر کو ایک سمری بھجوائی گئی اور صدر نے اسی دن نوٹیفکیشن جاری کر دیا لیکن اس عمل میں یہ کمی رہ گئی کہ وفاقی کابینہ سے منظوری نہ لی گئی۔