اسلام آباد(نیوز ڈیسک)نگراں سیٹ اپ کیلئے وزیر اعظم ،خیبر پختونخوا اور پنجاب کا معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جائے گا جبکہ بلوچستان اور سندھ کے نگراں وزیرا علی ایوان میں ہی منتخب ہوجائینگے اور کوئی مشکل نہیں ہوگی ،دوسری جانب اگر نگراں وزیر اعظم یا وزیر اعلی کا معاملہ ایوان یا پارلیمانی کمیٹیوں کے پاس حل نہیں ہوتا تو نام الیکشن کمیشن کو بھیجے جائیں گے اور الیکشن کمیشن کے پاس بھی خود سے نام کا انتخاب کرنے کا اختیار نہیں بلکہ وہ پارلیمانی کمیٹیوں کی جانب سے بھیجے گئے چار ناموں سے ایک کو چنے گا ۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹ کے اہم عہدے کیلئے طوفانی لیکن متنازع انتخاب کے بعد تمام نگاہیں اب نگراں وزیرا عظم / وزرائے اعلیٰ پر لگی ہیں اور دیکھا جارہا ہے کہ عبوری حکومت کے آنے سے عام انتخابات پر اثر پڑے گا ۔ممکنہ طور پر ایسا ایکشن سینیٹ میں ہارنے والے جماعت کرے گی اور عام طور پر کہا جارہا ہے کہ نئی سیاسی صف بندی آئندہ عام انتخابات پر اثر انداز ہوگی ۔جبکہ یہ بھی مشاہد ے میں ہوسکتا ہے کہ ماضی میں انتخابی عمل کے سخت نتائج آئے ۔نگراں حکومت کے پاس زیادہ سے زیادہ 60 روزجون جولائی کاوقت ہےاس دوران پارلیمانی انتخابات اور نئی حکومت کو اختیارات کی منتقلی کی جائے گی ۔تاہم دو ماہ متعدد اہم فیصلوں کیلئے طویل مدت ہوگی۔سینیٹ الیکشن کی تیزی کو دیکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے دو سیٹ میدان جنگ میں واضح ہیں ،پاکستان مسلم لیگ (ن)اور اس کے اتحادی کے مقابلے میں دیگر تمام ہیں ،ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ پارلیمانی جماعتیں نگراں وزیر اعظم اور دو وزرا اعلی پر متفق ہوجائیں ،سیاستدانوں کے ناکام ہوجانے پر معاملہ حتمی انتخاب کیلئے الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔بریک تھرو اور اتفاق رائے صرف اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز وفاقی اور پنجاب کے نگران سسٹم کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے ناموں پر متفق ہوجائے ،یہ بھی ایک تلخ تجربہ ہے کہ نیب کے نئے چیئرمین کیلئے پی پی نے کچھ عرصہ قبل تجاویز دی تھیں،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف وزیر اعظم اور صوبائی نگران حکومتوں کیلئے اپنے حریفوں کی ترجیحات کو سائیڈ لائن کرنے میں ہے ۔اس کے علاوہ وہبلوچستان سے ’’آزاد ‘‘اور سینیٹ چیئرمین کیلئے چھوٹی پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرینگے ،الیکشن کمیشن آف پاکستان صرف ایسی صورت میں ہی ایکشن میں آئے گا کہ جب وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نگراں وزیر اعظم اور وزرا اعلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اپوزیشن لیڈر عبوری وزرا اعلی کو نامزد کرنے میں کسی بھی معاہدے پر ناکام ہوجاتے ہیں ۔اس کے علاوہ اگر پارلیمانی کمیٹیاں بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ پائیں تو الیکشن کمیشن ایکشن میں آئے گا۔ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی کو اپنی مرضی سی عبوری وزیر اعظم یا وزیر اعلی لگادے ،الیکشن کمیشن وزیر اعظم اور وزرا اعلی کیلئےان چار ناموں میں سے کسی کو چنے گا کہ جو پارلیمانی کمیٹیاں بھیجیں گی اور وہ مشاورت کرنے والوں نے نام دیے ہونگے۔خاص طور پر بلوچستان میں دیکھا جائے تو وزیر اعلی کی تبدیلی کے بعد عبوری صوبائی سربراہ لانے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی ،سندھ میں بھی ایسی صورتحال ہوگی کہ جہاں پی پی کی ترجیح کیلئے وزیر اعلی سندھ لانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ،وزیر اعلی مراد علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار دونوں ہی مشاورت سے نگراں وزیرا علی کیلئے اتفاق رائے کرلیں گے۔دوسری طرف خیبر پختو نخوا میں ایسی توقع نہیں ہے کیونکہ وہاں مشاورت کیلئے وزیر اعلی پرویز خٹک اور جمعیت علمائے اسلام (ف)کےاپوزیشن لیڈر مولانا لطف الرحمان کے درمیان مشاورت پر اختلاف ہے ،اس لیے یہ معاملہ حتمی فیصلے کیلئے الیکشن کمیشن تک جائے گا۔بالکل ایسا ہی معاملہ پنجاب میں ہوگا کہ جہاں یہ معجزے سے کم نہیں ہوگا کہ اگر وزیر اعلی شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے میاں محمود الرشید ایک نام پر متفق ہوجائیں،ورنہ الیکشن کمیشن کو اس کے بعد ہی میدان میں آنا ہوگا ۔وفاقی سطح پر شاہد خاقان عباسی اور خورشید شاہ نگراں وزیر اعظم کیلئے مشاورت کرینگے ورنہ معاملہ حتمی فیصلے کیلئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس جائے گا۔آرٹیکل 224 اے کے مطابق ایسی صورت میں کہ اگر وزیرا عظم اور اپوزیشن لیڈرقومی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد تین روز میں نگراں وزیر اعظم کے نام پر متفق نہیں ہوتے تو معاملہ اسپیکر کی بنائی ہوئی 8 رکنی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا ،اگر وزیر اعلی اور اپوزیشن صوبائی اسمبلی میں نگراں وزیر اعلی کیلئے کسی نتیجے پر نہیں پہنچتے تو معاملہ اسپیکر کی 6 رکنی بنائی جانے والی کمیٹی کے پاس چلا جائے گا۔یہ کمیٹیاں عبوری وزیر اعظم اور وزیر اعلی کا تین روز میں انتخاب کرینگی اگر یہ بھی اپنے دورانیے میں کسی نتیجے پر نہیں پہنچتیں تو معاملہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس چلا جائے گا۔