counter easy hit

ہائی لینڈ میں

اسکاٹ لینڈ کے دو حصے ہیں‘ لو لینڈ (زیریں علاقہ) اور ہائی لینڈ (بالائی علاقہ) ‘زیریں علاقے میں برطانیہ سے جڑے شہر آتے ہیں جب کہ بالائی علاقے میں پہاڑ‘ جنگل اور جھیلیں شامل ہیں‘ ہائی لینڈ سوئٹزر لینڈ اور ناروے سے مشابہت رکھتا ہے‘ آپ جوں جوں ہائی لینڈ کی طرف بڑھتے جاتے ہیں آپ جنگلوں‘ آبشاروں‘ ندیوں اور جھیلوں کے قریب ہوتے جاتے ہیں‘ آپ فطرت کے مہمان بنتے جاتے ہیں‘ ہائی لینڈ میں دو بڑی جھیلیں ہیں‘ لاک لیمنڈ اور لاک نیس‘ یہ دونوں جھیلیں بہت وسیع ہیں‘ لاک نیس 37کلومیٹر لمبی اور تین کلومیٹرچوڑی ہے جب کہ لاک لیمنڈکی لمبائی 39 کلو میٹراور چوڑائی 8کلومیٹر ہے‘ یہ دونوں جھیلیں دس سے پندرہ ہزار سال قبل وجود میں آئیں‘ ہائی لینڈ کے زیادہ تر ٹاؤن ان دونوں جھیلوں کے کناروں پر آباد ہیں۔

میں پانچ دن ہائی لینڈ میں رہا‘ ہمارا پہلا دن بلیئرڈرم مونڈ سفاری پارک میں گزرا‘ ہم گاڑی میں بیٹھ کر شیروں کے احاطے میں بھی گئے‘ زیبروں‘ زرافوں اور دریائی گھوڑوں کو بھی قریب سے دیکھا اور ہم نے ہاتھی کو  بھی ہاتھ لگایا‘ یہ سفاری برطانیہ کے لحاظ سے اچھی ہے لیکن یہ آسٹریلیا‘ کینیا اور امریکا کی سفاریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ہاں البتہ سفاری پارک کی قربت میں ایک نیا اور دلچسپ تجربہ ہوا‘سفاری پارک سے چودہ کلو میٹر کے فاصلے پر فال کریک کا قصبہ ہے‘ یہاں دنیا کی ایک انوکھی تفریح ہے‘ یہ لوگ مسافروں کو کشتی میں بٹھاتے ہیں‘ یہ کشتی لوہے کے بھاری دھرے میں فٹ ہوتی ہے‘ دھرا گھومتا ہے اور کشتی 27 میٹر بلندی پر پہنچ جاتی ہے‘ بلندی پر ایک مصنوعی نہر بنائی گئی ہے۔

کشتی27 میٹر بلندی پراس نہر میں سفر کرتی ہے‘ یہ لوگ ٹرانسپورٹ کا ایک نیا ذریعہ ایجاد کر رہے ہیں‘ یہ بلندی پر نہریں بنائیں گے‘ نہروں میں کشتیاں چلائیں گے اور یہ کشتیاں انتہائی کم توانائی سے ہزاروں لوگوں کو منزل مقصود تک پہنچائیں گی‘یہ تجربہ قدیم سائنس دان ارشمیدس کے قانون کے تحت کیا جا رہا ہے‘ ہماری کشتی کے ڈرائیور نے بتایا یہ کشتی سومسافروں کو صرف اتنی توانائی کے ذریعے منزل کی طرف لے جا رہی ہے جتنی عموماً گھروں میں الیکٹرک کیٹل میں استعمال ہوتی ہے‘ ہم اس تجربے کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو شیو کرنے والی مشین‘ الیکٹرک کیٹل یا پھر استری کے برابر بجلی سے ہزاروں کلو میٹر دور پہنچا ئیں گے‘ ہم نے اس تجربے کو بہت انجوائے کیا۔ہماری اگلی منزل انورنس تھی‘ یہ ہائی لینڈ کا سب سے بڑا شہر ہے‘ یہ شہر دو حوالوں سے مشہور ہے‘ یہ اسکاٹ لینڈ کی سب سے بڑی جھیل لاک نیس کے ساحل پر واقع ہے اور دوسرا یہاں کولڈن کے مقام پر 1746ء میں ایک بڑی جنگ ہوئی تھی۔

یہ برطانوی سرزمین پر لڑی جانے والی آخری جنگ تھی‘ برطانوی فوجوں نے کلوڈن کی جنگ کے بعد ہمیشہ اپنے ملک سے دور محاذ کا انتخاب کیا۔ہم چار گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد انورنس پہنچے‘ انورنس میں ایک پاکستانی سے بھی ملاقات ہوئی‘ ان کا نام راجہ اقبال تھا‘ یہ کشمیری ہیں اور یہ چلتے چلتے دنیا کے آخری سرے پر پہنچ گئے ہیں‘ یہ پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کے متوالے ہیں‘ دیسی ریستوران چلا رہے ہیں اور پاکستان کو یاد کرتے ہیں‘ مجھے ان کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملا لیکن کم وقت میں بھی ان کی سادگی اور خلوص کا جی بھر کر لطف اٹھایا‘ حکومت نے کولڈن کے میدان کو قومی اثاثہ ڈکلیئر کر رکھا ہے‘ میدان میں جھنڈے لگا کر دونوں فوجوں کی پوزیشن واضح کر دی گئی ہے‘ کونے میں وار میوزیم اور سینما بھی ہے اور کافی شاپ بھی‘ سیاحوں کو گائیڈڈ ٹور بھی کرایا جاتا ہے‘ ہم لوگ بھی ٹور میں شامل ہو گئے۔

گائیڈ ہمیں میدان میں لے گیا‘ وہ ایک وسیع میدان تھا‘ میدان کی ایک سائیڈ پر سمندر تھا اور تین اطراف میں وسیع وادی اور ان کے پیچھے پہاڑ‘ اس میدان میں 1746ء میں دو برطانوی شہزادوں پرنس ولیم آگسٹس اورچارلس ایڈورڈکے درمیان اقتدار کے لیے جنگ ہوئی‘ دونوں اطراف سے اسکاٹش لڑے اور پوری جنگ ایک گھنٹے میں ختم ہو گئی لیکن آپ مارکیٹنگ کا کمال دیکھئے گوروں نے اس معمولی سی جنگ کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا‘ دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں‘ میدان میں کھڑے ہو کر گائیڈ کے منہ سے جنگ کی تفصیل سنتے ہیں‘ دشمنوں کی چوکیاں دیکھتے ہیں اور سیکڑوں پاؤنڈ ضایع کر تے ہیں‘ میدان میں سپاہیوں اور کمانڈروں کی قبریں بھی موجود ہیں‘ یہ میدان جنگ ہمیں متاثر نہ کر سکا ہاں البتہ جنگ کا تھیٹر قابل تعریف تھا‘ یہ ایک وسیع ہال تھا‘ ہال کی چاروں دیواروںپر اسکرینیں لگی تھیں‘ ہر اسکرین جنگ کی ایک سائیڈ کور کرتی تھی‘ سیاح ہال کے درمیان میں کھڑے ہو کر پوری جنگ کا معائنہ کرتے ہیں۔

ہماری اگلی منزل لاک نیس تھی‘ اسکاٹ لینڈ کے باشندے عفریت (مانسٹر) کو نیسی کہتے ہیں‘ اسکاٹش روایت کے مطابق جھیل میں ایک عفریت رہتا ہے‘ یہ عفریت گاہے بگاہے ظاہر ہوتا رہتا ہے‘ اس نیسی کی مناسبت سے یہ جھیل نیس کہلاتی ہے‘ یہ ایک وسیع جھیل ہے‘ اس کے دونوں اطراف پہاڑ ہیں اور ان پہاڑوں سے سیکڑوں ندیاں‘ دریا اور آبشاریں جھیل میں گرتی ہیں‘ آپ اگر اونچائی سے جھیل کو دیکھیں تو یہ آپ کو سبزے کے درمیان پانی کی ایک لکیر محسوس ہو گی‘ جھیل کا پانی صاف اور شفاف تھا‘ مچھلیاں تک نظر آ رہی تھیں‘ جھیل میں چھوٹا سمندری جہاز (فیری) چلتی ہے‘ ہم فیری میں سوار ہو گئے‘ فیری ہمیں آدھ گھنٹے میں قلعے تک لے گئی۔

یہ علاقے کا قدیم ترین قلعہ تھا‘ یہ وقت اور جنگوں کے ہاتھوں برباد ہو گیا لیکن اس کا شکوہ آج تک قائم ہے‘ قلعے کی ایک سائیڈ پر پہاڑ ہے جب کہ باقی تین اطراف پانی میں گھری ہوئی ہیں‘ سبز پہاڑ اور نیلے پانی کے درمیان سلیٹی رنگ کی پرانی شکستہ دیواریں دل میں ہیبت طاری کر دیتی ہیں‘ ہم ایک گھنٹہ وہاں رہے‘ قطب شمالی کی سرد ہوائیں اس دوران ہمیں آہستہ آہستہ جماتی رہیں لیکن منظر کی خوبصورتی ٹھنڈ پر غالب رہی‘ قلعے کا تھیٹر بھی دلچسپ تجربہ تھا‘ قلعے میں ایک درمیانے سائز کا سینما ہال تھا‘ سامنے کی دیوار پردے میں چھپی تھی‘ پردے پر قلعے کے بارے میں فلم چلی‘ فلم کے آخر میں پورا پردہ ہٹ گیا‘ پردے کے پیچھے شیشے کی دیوار تھی اور دیوار کی دوسری طرف پورا قلعہ نظر آرہا تھا‘فلم کے اختتام نے پورے ہال کو کھڑے ہو کرتالیاں بجانے پر مجبور کر دیا۔

میں نے وہ رات انورنیس کے مضافات میں ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک اسکاٹش گھر میں گزاری‘ گھر گاؤں کے آخری سرے پر تھا‘ کمرے کی کھڑکی سے کائنات کا آخری سرا تک دکھائی دیتا تھا‘ نظر کی حد پر سرمئی پہاڑتھے اور درمیان میں سبز جنگل اور ہرے بھرے کھیت اورکھیتوں میں گائے‘ بھیڑیں اور گھوڑے چر رہے تھے‘ شام کے وقت بارش شروع ہو گئی‘ بارش نے منظر میں رومانیت گھول دی‘ گھر کی بوڑھی مالکن نے مہربانی کی اور مجھے کافی کا کپ عنایت کر دیا‘ میں دیر تک کھڑکی میں کھڑا ہو کر منظر کو اپنی بینائی کا رزق بناتا رہا‘ بارش تیز ہوئی تو میں نے کھڑکی کے پٹ کھول دیے‘ ٹھنڈی یخ ہوا کا ریلا آیا اور میرے پورے جسم میں اتر گیا‘ میں روح تک سرشار ہو گیا۔

اس بارش میں بچھڑی محبت کی کسک تھی‘ ہم لوگ پوری زندگی اپنے بچھڑے ساتھیوں کوبھلاتے رہتے ہیں‘ ہم کامیاب بھی ہو جاتے ہیں لیکن پھر کسی اجنبی دیس کی کسی اجنبی کھڑکی پر چاند دستک دیتا ہے‘ کسی نامعلوم گاؤں کے کسی مہربان گھرکے سامنے بارش اتر آتی ہے یاپھر کسی مشکل نام والے پہاڑ سے یخ ہوا کا کوئی ریلا آتا ہے اور زخموں کے سارے ٹانکے کھل جاتے ہیں‘ میں بھی ایک لمحے میں حال سے ماضی میں چلا گیا‘ ایک ایسے ماضی میں جس میں ایسے بے شمار گاؤں اور درجنوںبارشیں تھیں اور بے شمار بچھڑے ہوئے ساتھی تھے‘ میں نے کھڑکی بند کی‘ کافی کا مگ میز پر رکھا‘ لائیٹ آف کی اور کمبل میں منہ دے دیا‘ ساری رات بارش ہوتی رہی‘ اندر بھی اور باہر بھی۔

ہم انورنیس سے سینٹ اینڈریوز روانہ ہو گئے‘ راستے میں فورٹ ولیم اور ڈنڈی کے قصبے آئے‘ فورٹ ولیم پہاڑ کی اترائی پر خوبصورت شہر ہے‘ شہر کے فرنٹ پر جھیل ہے جب کہ پشت پر پہاڑ‘ برطانیہ کا بلند ترین پہاڑبین نیوس فورٹ ولیم کے ہمسائے میں واقع ہے‘ پورے ملک سے سیاح ہائیکنگ کے لیے یہاں آتے ہیں‘ شہر اچھا تھا لیکن ہمیں اچھا نہ لگا چنانچہ ہم ڈنڈی کی طرف روانہ ہو گئے‘ ڈنڈی میں اسکاٹ لینڈ کی ایک بڑی آئل ریفائنری ہے‘ یہ شہر اپنی سمندری چٹانوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے‘ ہم نے رات ڈنڈی کی کیمپنگ سائیٹ میں گزاری‘ سمندر کے کنارے وسیع کیمپنگ سائیٹ تھی‘ سائیٹ میں خوبصورت اور آرام دہ کنٹینرز ہاؤس کھڑے تھے‘ ہم نے دو کمرے کا کنٹینر ہاؤس لے لیا‘ گھر میں دو باتھ روم بھی تھے اور  لاؤنج اور بالکونی بھی‘ وہ ایک مکمل مکان تھا‘ ہم اگلے دن سمندری چٹانوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔

آربروتھ کے مقام پر سمندر نے چٹانوں سے سر ٹکرا ٹکرا کر ان کے اندر حیران کن ’’شیپس‘‘ بنا دی تھیں‘ سمندر کے ساتھ ساتھ مہیب غار بھی تھے‘ سرنگیں بھی تھیں اور تہہ در تہہ سیڑھیاں بھی تھیں‘ یہ چٹانیں اور ان کی حیران کن شیپس یہ ہمیشہ یاد رہ جانے والا تجربہ تھا‘ حکومت نے چٹانوں کے ساتھ ساتھ چلنے کا راستہ بنا دیا تھا‘ جگہ جگہ بیٹھنے کے بینچ بھی تھے اور ’’خطرہ ہے احتیاط کریں‘ چٹان کے قریب نہ جائیں‘‘ کے بورڈز بھی ‘ حکومت نے وہاں ایسے نوجوانوں کی تصویریں بھی لگا رکھی تھیں جو یہاں آئے اور سیلفی کے چکر میں کسی چٹانی کنوئیں میں جا گرے اور پھر ان کی لاش تک نہ ملی‘ ہم نے ایک جگہ رک کر نیچے دیکھا‘ دور گہرائی میں ایک کنواں تھا‘ یہ کنواں بھی سمندری لہروں نے بنایا تھا‘ ہم نے نیچے جھانک کر دیکھا اور خوف کی ایک لہر ہماری ریڑھ کی ہڈیوں میں اتر گئی‘ ہم تینوں نے جھرجھری لی اور واپسی کا سفر شروع کر دیا۔