لاہور (ویب ڈیسک) ہم سینٹ پیٹرز برگ سے باہر نکل گئے‘ ہمارے دائیں بائیں جنگل تھے اور ان جنگلوں میں چھوٹی چھوٹی جھیلیں تھیں اور ہوا ان جھیلوں کے پانی کو گدگدا رہی تھی‘ پیٹرہوف ہماری منزل تھا‘ روس کا قدیم پوژوا طبقہ زندگی میں دو گھر بناتا تھا‘ سردیوں کا گھر اور گرمیوں کا گھر‘ نامور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ لوگ سردیوں میں شہروں کے اندر فلیٹس میں رہتے تھے۔سردی پوری دنیا میں خوف ناک ہوتی ہے لیکن آپ روس کی سردی کا تصور تک نہیں کر سکتے‘ اکتوبر کے مہینے میں سرد ہوائیں شروع ہو جاتی ہیں اور یہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے روس کو جما دیتی ہیں‘ سردی میں زندگی برقرار رکھنا مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے اور یہ مرحلہ ایندھن کے بغیر عبور نہیں کیا جا سکتا‘ فلیٹس میں یہ سہولت دستیاب ہوتی ہے‘ دیواریں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔گرم ہوائوں کے پائپ پوری عمارت میں بچھا دیے جاتے ہیں‘ انگیٹھی میں آگ جلا دی جاتی ہے‘ یہ آگ دھواں بن کر پائپوں میں گردش کرتی ہے اور یہ چند گھنٹوں میں پوری عمارت کو گرم کر دیتی ہے چناں چہ روس کے لوگ انیسویں صدی کے وسط تک سردیوں میں شہروں میں پناہ گزین ہو جاتے تھے‘ گرمیوں میں تپش زیادہ ہوتی ہے چناں چہ یہ لوگ دیہات اور اپنی جاگیروں میں شفٹ ہو جاتے تھے‘ ان کے سمر ہائوس گرمیوں میں ٹھنڈے ہوتے تھے‘ یہ ان میں جانور بھی پالتے تھے‘ سبزیاں بھی اگاتے تھے اور پھل بھی توڑ کر کھاتے تھے۔گرمیوں کے یہ گھر ڈاچے کہلاتے تھے اور یہ آج بھی ڈاچے ہی کہلاتے ہیں‘ روس کے خوش حال لوگ آج بھی دو گھر بناتے ہیں‘ یہ سردیاں شہر اور گرمیاں دیہات میں گزارتے ہیں‘ یہ چھٹیوں میں بھی ڈاچے میں چلے جاتے ہیں‘ حکومتیں زار کے زمانے کی ہوں یا یہ اشتراکی حکومتیں ہوں یا پھر یہ آج کی جمہوری حکومت ہو سرکار موسمیاتی مجبوریوں سے واقف ہے لہٰذا یہ لوگوں کو شہروں میں گھر نہیں بنانے دیتیں‘ آپ اگر ماسکو جائیں تو آپ کو 22 کلو میٹر کے دائرے میں کوئی گھر دکھائی نہیں دے گا‘ حکومت نے اندرون شہر میں گھروں کی تعمیر پر پابندی لگا رکھی ہے۔ماسکو میں 22 مربع کلو میٹر کے دائرے میں صرف فلیٹس ہیں اور لوگ ان فلیٹس میں رہتے ہیں‘ حکومت 22 کلو میٹر سے باہر گھر بنانے کی اجازت دیتی ہے چناں چہ آپ کو گھر صرف شہر کے مضافات میں دکھائی دیتے ہیں‘ سینٹ پیٹرز برگ روس کا دوسرا بڑا شہر ہے اور یہ دنیا کے چند ایسے شہروں میں شمار ہوتا ہے جو پہلے دماغ میں بنے‘ پھر کاغذ پر اور یہ آخر میں زمین پر بنائے گئے۔سینٹ پیٹرز برگ زار روس پیٹر اعظم نے 1703ء میں بنایا اور سینٹ پیٹر کے نام پر اس کا نام سینٹ پیٹر رکھ دیا‘ یہ روس کے یورپی حصے میں آتا ہے‘ فن لینڈ اس سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ دونوں کے درمیان سمندر کی چھوٹی سی پٹی بھی آتی ہے‘ آپ فیری کے ذریعے بھی سینٹ پیٹرز برگ سے فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی جا سکتے ہیں‘ شہر سے روزانہ فن لینڈ اور سویڈن کے لیے بحری جہاز چلتا ہے‘ یہ تین دن میں گھوم کر واپس آ جاتا ہے‘ لوگ اس کے ذریعے روس اور یورپ کے درمیان گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔دنیا میں اس وقت چھوٹے بڑے 245 ملک ہیں لیکن شہر صرف چار پانچ ہی ہیں اور سینٹ پیٹرز برگ ان میں پہلے نمبر پر آتا ہے‘ شہر کی ہیت تین سو سال میں تبدیل نہیں ہوئی‘ آج بھی اگر پوشکن کی شاعری کا کوئی رومانوی ہیرو یا دوستو فسکی‘ ٹالسٹائی یا گوگول کا کوئی کردار سینٹ پیٹرز برگ آ جائے تو وہ سیدھا اپنے ایڈریس پر پہنچ جائے گا اور اس کی گلیاں اور دروازے اسی طرح اس کا استقبال کریں گے جس طرح یہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بازو پھیلا کر انھیں سینے سے لگا لیتے تھے‘ شہر کی ہیت نے تین سو سال اپنے آپ کو برقرار رکھا۔گلیوں کے پتھروں نے بھی زمین کا ساتھ نہیں چھوڑا اور ندیوں‘ نہروں اور دریائوں نے بھی اپنا رخ نہیں پھیرا‘ یہ دنیا میں پلوں کا سب سے بڑا شہر بھی کہلاتا ہے‘ سینٹ پیٹرز برگ میں پانچ سو پل ہیں‘ بارہ پل رات کے وقت کھول دیے جاتے ہیں اور بڑے بڑے دیوہیکل بحری جہاز ان کے راستے شہر میں داخل ہو جاتے ہیں‘ یہ زاروں کے زمانے میں روس کا دارالحکومت ہوتا تھا‘ راسپوٹین بھی اسی شہر سے تعلق رکھتا تھا‘ اس کا محل آج تک موجود ہے‘ حکومت نے اسے میوزیم بنا دیا۔یہ روز شام دو گھنٹے کے لیے کھولا جاتا ہے اور لوگ قطاروں میں کھڑے ہو کر تاریخ کے واہیات ترین کردار کی ذاتی اشیاء کا معائنہ کرتے ہیں‘ دوستوفسکی کے کراموزوف برادرز بھی اسی شہر میں پل کر جوان ہوئے تھے اور جرم و سزا کے سارے کردار بھی خونی کلیساء کے دائیں بائیں گردش کرتے رہتے تھے‘ سینٹ پیٹرز برگ کی فضا میں موسیقی‘ ادب اور ثقافت تینوں شرابوں میں شرابوں کی طرح ملتی ہیں‘ یہ روح کی نسوں میں اتر کر اندر دور گہرائی میں سارے تار گدگدا دیتی ہیں۔زار پیٹر بھی روسی تھا چناں چہ اس نے بھی اپنے لیے دو محل بنوائے تھے‘ سردیوں کا محل شہر میں تھا جب کہ گرمیوں کا محل شہر سے باہر سمندر کے کنارے تھا‘ گرمائی محل پیٹر کی مناسبت سے پیٹر ہوف کہلاتا ہے‘ سینٹ پیٹر کا ونٹر پیلس بھی کمال ہے‘ پیرس کے لوو میوزیم کے بعد دنیا میں آرٹ کا سب سے بڑا ذخیرہ اس محل میں ہے‘ محل میں آرٹ کے 30 لاکھ نمونے ہیں‘ روسی ماہرین کا دعویٰ ہے آپ اگر ہر نمونے کے سامنے ایک منٹ کے لیے کھڑے ہو جائیں تو آپ کو ونٹر پیلس کے سارے نمونے دیکھنے کے لیے آٹھ سال چاہییں۔یہ بادشاہوں کے خبط کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے‘ آپ کو اس میں لیونارڈو ڈاونچی سے لے کر جارج ڈاتک دنیا کے تمام مصوروں کی پینٹنگز مل جاتی ہیں اور ہر پینٹنگ کی قیمت چار پانچ سو ملین ڈالر سے کم نہیں‘ ہم نے نیلے رنگ کا ایک وسیع مرتبان دیکھا‘ پتا چلا مرتبان کے پتھر کا ایک گرام چاندی کے ایک گرام کے برابر قیمتی ہے اور یہ مرتبان پانچ سو کلو گرام وزنی ہے‘ دنیا میں پتھر کے سب سے زیادہ ’’ون پیس‘‘ مجسمے بھی اسی محل میں ہیں۔ماہرین کہتے ہیں روس کی حکومت اگر آرٹ کے یہ نمونے فروخت کر دے تو یہ اپنی عوام کو سو سال تک کھانا‘ تعلیم اور علاج کی سہولت مفت فراہم کر سکتی ہے جب کہ پیٹر ہوف بادشاہ کا گرمائی محل تھا‘ محل کے دو حصے ہیں‘ محل اور محل کا باغ‘ ہم صرف محل کا باغ دیکھ سکے‘ میں باغ کی طرف جانے سے پہلے آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں یہ ہم کون ہیں؟ ہم 53 ہم خیال لوگ 23 اگست سے 29 اگست تک سات دن کے لیے روس کی سیر کے لیے سینٹ پیٹرز برگ اور ماسکو گئے۔یہ سیر میری فائونڈیشن جاوید چوہدری فائونڈیشن اور آئی بیکس کمپنی نے ارینج کی تھی‘ ہمارے گروپ میں بزنس مین‘ بینکر‘ آرکی ٹیکٹ اور طالب علم شامل تھے‘ ہم تین دن سینٹ پیٹرز برگ میں رہے اور تین دن ماسکو میں گزارے‘ پاکستان میں روس اور روس میں پاکستان کے سفراء نے ہمارا بے انتہا خیال رکھا‘ روس کا ویزا آج کل یورپ اور امریکا سے زیادہ مشکل ہے لیکن پاکستان کے روسی سفیرقاضی ایم خلیل اللہ نے یہ ہمارے گروپ کے لیے آسان بنا دیا‘ روسی ائیر پورٹس پر پاکستانیوں کو دو دو گھنٹے بٹھا دیا جاتا ہے لیکن سینٹ پیٹرز برگ کے گورنرالیگزینڈر بگلوف نے اپنا اسٹاف ائیر پورٹ بھجوا کر پانچ منٹ میں ہماری امیگریشن کرا دی اور یوں ہم رات کے وقت خواری سے بچ گئے۔سینٹ پیٹرز برگ میں ونٹر پیلس‘ خونی کلیساء اور پیٹر ہوف ہماری توجہ کا مرکز تھا‘ ہم نے خونی کلیساء اور ونٹر پیلس پہلے دن بھگتا دیے‘ ہم ونٹر پیلس ساتھیوں کی تھکاوٹ کی وجہ سے پورا نہ دیکھ سکے تاہم آرٹ گیلری کا ایک بڑا حصہ ہم نے دیکھ لیا‘ بادشاہ بھی کیا چیز ہوتے ہیں‘ ملکہ کو کسی نے بتایا آپ نے کمال محل بنایا لیکن آپ کے محل کی دیواریں اور چھتیں ’’ویٹی کن سٹی‘‘ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں‘ ملکہ نے ماہرین اٹلی بھجوا دیے‘ وہ دو سال ویٹی کن سٹی میں رہے‘ مین چرچ کی مین چھت کا نمونہ تیار کیا اور سینٹ پیٹرز برگ آ کر محل کی ایک گیلری کو ویٹی کن بنا دیا۔یہ گیلری واقعی کمال ہے‘ آپ کو دائیں سے بائیں اور اوپر سے نیچے تک ایک ایک انچ میں آرٹ کی جھلک نظر آتی ہے‘ روس کا آخری زار نکولس دوم بھی اسی محل میں رہتا تھا‘8 مارچ 1917ء کو لینن کا انقلاب بھی سینٹ پیٹرز برگ سے شروع ہوا‘ نکولس دوم اوراس کے سارے خاندان کو گرفتار کر لیا گیا‘16 اور 17جولائی 1918 کی درمیانی شب انقلابیوں نے شاہی خاندان کے تمام افراد قتل کر دیئے ‘ کوئی بچہ اورکوئی بچی تک نہ بچی‘ صرف زار کی ماںماریہ فیوڈوروونا کو چھوڑ دیا گیا‘وہ خاندان کے قتل کے بعد لندن شفٹ ہونے پر مجبور ہوگئی‘وہ وہاں سے ڈنمارک چلی گئی اور 13 اکتوبر1928کو انتقال تک ڈنمارک میں رہی۔مرنے کے بعد اس کی لاش بھی سینٹ پیٹرز برگ لا کر دفن کر دی گئی‘ زار کے خاندان کو جب قتل کیا جا رہا تھا تو خاندان کے کسی فرد نے انقلابیوں سے رحم کی اپیل نہیں کی‘ بچے تک چپ چاپ گولی کا نشانہ بن گئے‘ آہ تک کی آواز نہیں نکلی اور زار کا پورا خاندان فنا ہو گیا‘ایک ہزار55 سال تک پھیلی دنیا کی شاندار ترین سلطنت ختم ہو گئی‘ میں ونٹر پیلس میں وہ کمرہ دیکھ چکا ہوں جہاں بیٹھ کر زار کے خاندان نے گرفتاری سے قبل اپنا آخری ڈنر کیا تھا‘ میز اور کرسیاں آج بھی اسی پوزیشن میں پڑی ہیں۔بدقسمتی سے ہمارے ساتھی وقت کی کمی کے باعث اس عبرت گاہ کا معائنہ نہیں کر سکے تاہم یار زندہ اور صحبت باقی‘ ہم کبھی نہ کبھی اس کمرے میں بھی جھانک لیں گے‘ پیٹر ہوف ونٹر پیلس سے مختلف تھا‘ پیٹر اعظم فرانس کے گرمائی محل شتودی ورسائی سے متاثر تھا چناں چہ اس نے روس میں اپنا ورسائی تخلیق کرا دیا تھا‘ آپ یقین کیجیے ہم جب باغ کی سیڑھیاں اتر کر صحن میں آئے تو ہم حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئے‘ وہ باغ اس قدر خوب صورت تھا کہ خوب صورتی کو بھی اس سے حسد ہو جائے‘ حیرت بھی اسے دیکھ کر حیران رہ جائے اور آئینہ بھی اس کی جھلک دیکھ کر گھونگھٹ نکال لے‘ ہم لوگ باغ میں کھڑے تھے اور پاگلوں کی طرح دائیں بائیں دیکھ رہے تھے۔