وہ ایک راجستھانی تھے جو کسی مغلانی کے انتظارمیں پتھر تو نہیں ہوئےلیکن ناقدریء دوراں کے پتھر اپنے سرپر برستے ہوئے ضرور محسوس کرتے رہے۔روح کے زخموں کا تریاق یہی ہے کہ آدمی ہوش میں نہ رہے، مدہوش ہو جائے۔رساچغتائی کے روزوشب بھی بادہ و ساغر کی گردشوں میں آ گئے تھے۔والدین انتہائی مذہبی تھے۔وہ انہیں کسی ندامت سے دوچار بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔اہلیہ کو بھی بتادیا تھا کہ شادی کابندھن تو ٹوٹ سکتا ہے ،منہ سے لگی ہوئی یہ کافر نہیں چھوٹ سکتی۔
وہ اپنے چاہنے والوں کو پیارے صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔پھر یہ سلسلہ عبیداللہ علیم اور جمال احسانی سے ہوتا ہوا جاویدصبا، اجمل سراج اور خالدمعین تک چلاآیا۔ہم آج بھی ایک دوسرے کو پیارے صاحب کہہ کر بلاتے ہیں۔رساچغتائی پیارے صاحب بھی تھے اور رسابھائی بھی۔شایدیہ جے پورکے گہرے گلابی رنگوں کا اثرتھاکہ رندانہ سرمستیوں کے جتنے رنگ تھے ، سب کے سب رسابھائی کی شاعرانہ طبیعت کا حصہ بنتے چلے گئے۔
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
سوائی مادھوپور کی مٹی نے ہمیں مرزامحتشم علی بیگ نامی ایک سرکاری ملازم دیا،سندھڑی نے اُسے رساچغتائی کانام دیا۔ایک ایسا نام جوانورشعوراور جون ایلیاکےساتھ مل کر ایک شعری تکون بناتا ہے تو اُردو شاعری کے منظر نامے پر یہی کراچی کا لہجہ کہلاتا ہے۔جو بہت سادہ بھی ہے ، پرکار بھی۔یہی’ زنجیرِ ہمسائیگی‘ ہے جو کراچی سے اُبھرنے والی آوازوں کو ایک دل کش و دل آویزلہجے کی لڑی میں پروتی چلی جاتی ہے۔
اگر غزل کو خودکلامی یا ایک طرح کی سرگوشی کا نام دیا جائے اور اس کام پر کسی شاعر کو مامورتصور کیا جائے تو سب سے پہلے جو نام دل ودماغ میں گھونجتا ہے وہ رساچغتائی کا ہے۔انہوں نے بہت دھیمے لہجے میں اپنے آپ سے جو باتیں کی ہیں یا اس شہر کے درودیوار سے جو سرگوشیاں کی ہیں۔ان کی بازگشت ان کے درج ذیل اشعار میں تادیر سنائی دیتی رہے گی۔
شہر کراچی یاد ہے تجھ کو تیرے شب بیداروں میں
ایک رساچغتائی بھی تھا یار ہمارا یاروں میں
گرمی اُس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
باہر ایک تماشا ہے
اندر کی حیرانی کا
صرف مانع تھی حیا ء بندِقبا کھلنے تلک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا ایسا کھلا
ترے نزدیک آکر سوچتا ہوں
میں زندہ تھا کہ اب زندہ ہوا ہوں
جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
میں اُن آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں
وہ پہروں آئینہ کیوں دیکھتا ہے
مگر یہ بات میں کیوں سوچتا ہوں
اور پھر یہ ہوا کہ بچوں نے
چھینا جھپٹی میں توڑ ڈالا مجھے
زندگی اک کتاب ہے جس سے
جس نے جتنا بھی اقتباس کیا
بلاتی ہیں تمہیں یادیں پرانی
چراغ ِ رفتگاں فرصت نکالو
کہاں اب وہ لباس ِ وضع داری
بہت جانو اگر غربت چھپا لو
کھڑکیاں بے سبب نہیں ہوتیں
تاکتے جھانکتے رہا کیجئے
زلف اُس کی ہے جو اُسے چھو لے
بات اُس کی ہے جو بنا لے جائے
بس یہیں تک ہے قصہ ء درویش
اس سے آگے ہے اب سفر تنہا
آن اپنی جگہ مغل زادے
عشق تو ٹوٹ کر کیا ہوتا
غزل کےمغل زادے کے جسدِ خاکی کو کاندھا دینے سے پہلے ایک نظم بھی پڑھ لیجئے جس میں کس خوبصورتی کے ساتھ انہوں نے اپنی سیلفی کھینجی ہے۔
سنتے ہیں اس گلی میں
اک شخص منحنی سا
کچھ رنگ گندمی سا
ہونٹوں پہ مسکراہٹ
آنکھوں میں کچھ نمی سی
باتوں میں زندگی سی
کچھ دن سے آبسا ہے
تم جس کو ڈھونڈتے ہو
یہ شخص وہ نہیں ہے
وہ شخص اب کہاں ہے؟