اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) جو لوگ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کو 2018ء کے عام انتخابات سے قبل جیل میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں ان کی راہ میں سب سے بڑی آئینی رکاوٹ آئین کے آرٹیکل 45؍ ہے، اس رکاوٹ کو صرف اسی صورت عبور کیا جا سکتا ہے جب ممکنہ طور پر احتساب مقدمات کو عبوری انتظام تک گھسیٹا جائے۔ نواز شریف اور ان کے بچوں کیخلاف نیب عدالتوں میں ہونے والے ٹرائل کے میرٹ میں جائے بغیر دیکھیں تو میڈیا اور سیاسی حلقوں میں یہ عمومی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ نواز، مریم اور کیپٹن (ر) صفدر پر فرد جرم عائد کرکے انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔
شریف فیملی اور لیگی رہنمائوں کو بھی خدشہ ہے اور وہ اسے ان کیخلاف ایک سازش سمجھتے ہیں۔ تاہم، سیاست میں ان کے مخالفین اور دیگر لوگ سمجھتے ہیں کہ نیب کے پاس ان پر فرد جرم عائد کرانے کیلئے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ اگر اسلام آباد کی احتساب عدالت حال ہی میں دی جانے والی توسیع کے تحت 14؍ مئی تک کیس کا فیصلہ سنا دیتی ہے اور اگر نواز شریف اور دیگر کو قصور وار قرار دیتے ہوئے جیل بھیج دیتی ہے تو ان کے پاس یہ آپشن ہے کہ ان کی سزا فوری طور پر آئین کے آرٹیکل 45؍ کے تحت صداری معافی کے ذریعے ختم کی جا سکتی ہے۔مرکز میں نواز لیگ کی حکومت ہے اور صدر مملکت بھی شریف فیملی کا اپنا ہی آدمی ہے، ایسی صورت میں جیل بھیجنے کی سزا کتنی ہی کیوں نہ ہو اس سے شریف فیملی کو تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ انہیں فوری طور پر معاف کر دیا جائے گا۔
تاہم، شریف فیملی اور مسلم لیگ (ن) کیلئے صورتحال اس وقت پیچیدہ ہوجائے گی جب شریف فیملی کے ٹرائل کا عرصہ مزید بڑھا دیا جاتا ہے اور اس کا فیصلہ عبوری حکومت کے دوران سنایا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر احتساب عدالت کو مقدمات کا فیصلہ سنانے کیلئے 6؍ ماہ کا وقت دیا گیا تھا۔ ابتدائی ڈیڈلائن 14؍ مارچ کو ختم ہوگئی۔ چونکہ اس تاریخ تک ٹرائل مکمل نہیں ہوسکا تھا اسلئے احتساب عدالت کو حال ہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف، مریم اور صفدر کے کیس میں مزید دو ماہ جبکہ اسحاق ڈار کے کیس میں اضافی تین ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔ اس توسیع کے ساتھ، نواز شریف اور دیگر کے کیسز میں نئی ڈیڈ لائن 14؍ مئی 2018ء ہے اور اس وقت تک وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے تحت مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پاس اپنی مدت مکمل کرنے کیلئے مزید دو ہفتوں کا وقت ہوگا۔ سزا اور جیل بھیجے جانے کی صورت میں نواز لیگ کی حکومت آرٹیکل 45؍ کے تحت اپنے رہنمائوں کو جیل جانے سے بچا لے گی۔
آئین کا آرٹیکل 45؍ صدر مملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی عدالت، ٹریبونل یا کسی دوسری اتھارٹی کی جانب سے سنائی جانے والی سزا کو معطل، ختم یا تبدیل کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ صدر مملکت کو معافی دینے کا اختیار ہے لیکن یہ اختیار عدلیہ کی تشریح کے تناظر میں اور زیادہ تر آئینی ماہرین کی رائے کے مطابق صرف وزیراعظم کی ایڈوائس کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ کچھ کی رائے ہے کہ یہ صدر مملکت کا صوابدیدی اختیار ہے۔ لہٰذا شریف فیملی کے کیس میں سزا کو معطل، تبدیل یا ختم کرنے کیلئے انہیں وزیراعظم کی ایڈوائس کی ضرورت ہوگی جو نواز لیگ کی حکومت میں تو جاری کی جا سکتی ہے لیکن عبوری حکومت میں شاید ایسا ممکن نہ ہو۔ آئین کے تحت کسی بھی مجرم کو دی جانے والی معافی، سزا کی تبدیلی یا معطلی ایک مرتبہ دیدی جائے تو اسے واپس نہیں لیا جا سکتا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف کی سزا ایک مرتبہ پہلے بھی ختم کی جا چکی ہے۔ جنرل مشرف کی آمریت میں، جنرل نے اپنے دستخط کے ساتھ آرٹیکل 45؍ کے تحت اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو ایڈوائس دی تھی کہ 30؍ اکتوبر 2000ء کو سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو سنائی جانے والی عمر قید کی سزا معاف کر دی جائے اور اٹک کی احتساب عدالت کی جانب سے 22؍ جولائی 2000ء کو نواز شریف کو سنائی جانے والی 14؍ سال کی سزا معاف کر دی جائے۔ بعد میں جب نواز شریف جلاوطنی سے واپس آئے تو انہوں نے سپریم کورٹ سے اپنی سزائیں ختم کرائی تھیں۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری نے خصوصی آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے احتساب عدالتوں سے سزا حاصل کرنے والے اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کی سزا معاف کر دی تھی۔ رحمان ملک نے لاہور ہائی کورٹ سے اپیل کی تھی کہ انہیں نیب ریفرنسز میں بری کر دیا جائے لیکن عدالت نے سزائیں برقرار رکھیں جس کے بعد صدر زرداری نے انہیں معافی دی۔