تحریر: علی عمران شاہین
مقبوضہ کشمیر ان دنوں اپنی تحریک آزادی کے ایک نئے دور سے گزر رہا ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے کشمیری قوم پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بار بار اور جگہ جگہ لہرا کر دنیا کو بتا رہی ہے کہ وہ پاکستان سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ پاکستانی پرچم لہرانے والے کشمیری نوجوانوں کو بھارتی پولیس بڑے پیمانے پر گرفتار کر رہی ہے۔ جگہ جگہ چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ جو گرفتار ہوئے ان پر کالے قوانین لگا کر پابند سلاسل کیا جا رہا ہے۔
بھارتی فورسز اور کٹھ پتلی حکومت دونوں ہی بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ پاکستانی پرچم لہرانے والوں کو کڑی سزا دی جائے گی۔ اس اعلان پر پوری شدومد سے عمل درآمد بھی کیا جا رہا ہے لیکن کشمیری قوم بھی عجب مٹی سے بنی ہے کہ وہ پیچھے ہٹتی دکھائی دیتی ہی نہیں اور نہ ہی اپنے موقف میں لچک تک دکھاتی ہے۔ کل تک کچھ نام نہاد انشور اور ملکی و غیر ملکی میڈیا کہنے لگا تھا کہ کشمیری عوام پاکستان سے الحاق نہیں چاہتے۔ ان کا موڈ اور مزاج اب تبدیل ہو چکا ہے۔ کشمیری اگر آزادی کی بات کرتے ہیں تو وہ مکمل علیحدگی اور خودمختاری کی بات کرتے ہیں، لیکن کشمیری قوم نے جو نئی تاریخ رقم کرنا شروع کی ہے اس کے بعد ایسے لوگوں کی صفوں میں اب قبرستان کی سی خاموشی ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے سبز ہلالی پرچم اٹھا کر سامنے آنے سے بھارت میں اس قدر پریشانی ہے کہ نئی دہلی کے بڑے بڑے کرتا دھرتا اس پر سخت پریشانی کا اظہار کر رہے ہیں۔ بھارت سے لے کر ساری دنیا تک ہر کوئی حیران ہے کہ کشمیری قوم نے یہ کیسا اور کون سا فیصلہ کر کے اس پر عمل شروع کر رکھا ہے۔ کل تک جموں میں تحریک آزادی نسبتاً خاموش تھی لیکن اب وہاں بھی یک لخت صورتحال بدل گئی ہے۔
بھارت کو ان دنوں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جو سب سے بڑی اور نئی پریشانی لاحق ہے وہ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کا بھارت کے خلاف ہتھیار اٹھا کر میدان میں اترنا ہے۔ بھارت آج تک یہ پراپیگنڈہ ساری دنیا میں کرتا آیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی پاکستان کی جانب سے چلائی جا رہی ہے لیکن 7اگست کو تو بھارتی فوج کی 15ویں کشمیر کور کے سربراہ جنرل سبھرتا ساہا نے دیگر عسکری اور کٹھ پتلی حکام کی طرح کھل کر اعتراف کر لیا کہ اس وقت جتنے نوجوان کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف برسرپیکار ہیں ان کی بھاری اکثریت مقامی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ 6اگست کو ضلع کپواڑہ کے مقام کاکہ پورہ میں ہونے والے معرکہ نے تو بھارت کی نیندیں حرام کر دی ہیں جس میں کشمیری نوجوانوں کی ہر دلعزیز تنظیم لشکر طیبہ کے ضلعی کمانڈر ابوعمر طالب حسین شاہ اپنے ایک اور مقامی دوست کے ہمراہ بھارتی فوج کے خلاف انپے دیگر ساتھیوں کو فوج کے سخت گھیرے سے نکالتے ہوئے معرکہ لڑتے بہادری کی نئی داستان رقم کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے تھے۔
طالب حسین شاہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے، بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں جتنے نوجوان اب تک شہید ہوئے، ان میں طالب حسین شاہ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ طالب حسین شاہ کو شہید کرنے کے لئے بھارتی فوج نے طویل لڑائی اور بھاری زک اٹھانے کے بعد ایک بڑا دھماکہ کر کے اسی جگہ کو ہی کھنڈر بنا دیا تھا جہاں طالب حسین شاہ مورچہ زن تھے۔ ان کی شہادت کے بعد علاقہ بھر اور دور دراز سے ہزاروں کشمیری جنازے میں شرکت کیلئے امنڈ آئے تو بھارتی فورسز نے کرفیو لگا دیا۔ کشمیریوں نے یہ کرفیو بھی توڑ ڈالا۔ طالب حسین شاہ کے جنازہ کے جلوس میں بھی کشمیریوں نے پاکستان کا پرچم اٹھا کر دنیا کو ایک بار پھر بتا دیا کہ وہ خون دے کر اور لاشیں اٹھا کر بھی بھارت سے نفرت اور پاکستان سے محبت کرتے رہیں گے۔اس کے ایک ہفتہ بعد12اگست کو پلوامہ میں لشکر طیبہ کی معرکہ آرائی میں اسی علاقے کے رہائشی دو نوجوان شوکت احمد لون اور گلزار احمد جام شہادت نوش کر گئے۔
بھارت ایک طویل عرصہ سے یہ کہہ رہا تھا کہ لشکر طیبہ کا مرکز پاکستان میں ہے۔
امریکہ سمیت پاکستان اور اسلام دشمن دنیا بھی یہی کہہ رہی تھی کہ لشکر طیبہ دراصل جماعة الدعوة ہی ہے لیکن ایک ایسے وقت میں جب مقبوضہ کشمیر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ مقامی نوجوان لشکر طیبہ کا پرچم اٹھا کر بھارتی فوج سے ٹکرا کر آزادی کیلئے جام شہادت نوش کر رہے ہیں تو اس کیفیت سے سارا عالم گونگا، اندھا اور بہرا بنا ہوا ہے۔ یہ معاملہ صرف طالب حسین شاہ یاان کے دوست کا ہی نہیں، اس سے پہلے لشکر طیبہ کے ان بے شمار مجاہدین کا بھی ہے جو مقبوضہ کشمیر کے ہی باسی تھے۔ اسی لئے تو بھارتی فوج کی15ویں کور کے سربراہ جنرل سبھرتا سہا نے تسلیم کیا ہے کہ لشکر طیبہ میں مقامی نوجوان میں شامل ہیں۔ طالب حسین شاہ کی شہادت اور پھر تدفین کے بعد ضلع کپواڑہ میں کئی روز مسلسل کرفیو کے باوجود زبردست مظاہرے ہوتے رہے۔ کشمیری نوجوان صرف طالب حسین شاہ سے ہی نہیں لشکر طیبہ سے اپنی دلی محبت اور جذبات کا اظہار ڈنڈے، آنسو گیس بلکہ گولیاں کھا کر کرتے رہے۔ کتنے خون میں لت پت ہوئے تو کتنے بھارتی جیلوں میں جا پہنچے۔
بھارت کے قید خانوں میں اس وقت بھی 10ہزار سے زائد کشمیری نوجوان قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ اس سے زائد ظلم و ستم سہتے سہتے جان کی بازی لگا چکے لیکن پاکستان سے محبت کا یہ سفر جاری ہے۔ اتنی قربانیوں، اتنی کٹھن راہوں پر سفر کرنے والی کشمیری قوم یہ تو پوچھنے کی حق دار ہے کہ وہ پاکستان اس کی ریاست اور اس کے عوام ان کیلئے آخر کیا کر رہے ہیں کہ جن کی محبت اور دفاع میں وہ خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔ ٹھیک 7سال پہلے اسی اگست کی12تاریخ کو کشمیری قوم ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں اپنے ٹرک اور مال و متاع لے کر ”میری منڈی، تیری منڈی راولپنڈی، راولپنڈی” کے نعرے لگاتی مظفر آباد کی جانب آ رہی تھی۔ اسی روز بھارتی فوج نے انہیں روکنے کے لئے ان پر آتش و آہن کی بارش کر کے 70کے لگ بھگ نفوس کو خون میں غلطاں کر ڈالا تھا۔ ان کے ہر دلعزیز رہنما شیخ عبدالعزیز اسی سفر میں گولی کھا کر سڑک کے کنارے گھرے تھے اور جام شہادت نوش کر گئے تھے لیکن پاکستان سے محبت کا سفر کمزور نہ پڑ سکا۔
ان کشمیریوں کو پاکستان سے یوں محبت اور اس سے الحاق پر مجبور کرنے والا صرف وہ کلمہ طیبہ ہے جس کی بنیاد پر ساری دنیا کے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں معمولی سی تعداد لیکن طاقتور حیثیت رکھنے والا طبقہ اس مملکت خداداد کے درودیوار سے کلمہ طیبہ کو کھرچنے میں مصروف ہے۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ کو کتنے حربوں سے معدوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کتنے وسائل خرچ ہو رہے ہیں، اندرون و بیرون سے کتنا سرمایہ اس پر صرف ہو رہا ہے لیکن کس قدر عظیم ہے وہ کشمیری قوم کہ جو اپنے خون کی روشنی سے اس نظریے کو بار بار زندہ کر رہی ہے۔
ہم اس کشمیری قوم کا جس قدر شکریہ ادا کرنا چاہیں، ہم اس کا پاسنگ بھی ادا نہیں کر سکتے۔ 10لاکھ بھارتی فورسز کو ان کشمیریوں نے روک کر پاکستان کو بھارتی دہشت گردی سے محفوظ رکھا ہوا ہے تو یوم آزادی پر ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ ہم اس کشمیری قوم کیلئے کیا قربانی پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹنے والوں اور اس ملک میں بیٹھ کر جاہ و حشمت کی زندگی بسر کرنے والوں کو اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہئے کہ اس آزادی اور اس ملک کی بقاء و دفاع میں کشمیریوں کے جان مال اور عزت و آبرو کا کتنا حصہ ہے اور ہم اس کے بدلے انہیں کیا دے رہے ہیں ۔اور ہاں!جس فکرو نظریہ پر وہ خون دے رہے ہیں،اس کیلئے ہم اپنے ملک میں امن و سکون کے ساتھ رہتے ہوئے کیا کچھ کر رہے ہیں۔
تحریر: علی عمران شاہین