لاہور: اہرین نے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے پاکستان میں آئندہ برسوں کےدوران گرمی میں مزیدشدت کی پیش گوئی کی ہے۔
وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے باعث گرمی کی لہر یا ہیٹ ویو کے واقعات میں آنے والے سالوں میں مزید شدت اورتیزی آئے گی جس سے صحت ، معاشی اور سماجی شعبوں پر انتہائی مہلک اثرات مرتب ہوں گے۔
شدید اور تواتر سے رونما ہونے والے گرمی کی لہر کے زیادہ تر واقعات شہروں اور گنجان آبادی والے علاقوں میں رونما ہوں گے، جن کے باعث معمر ، کمزور، غربت اور بھوک سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں ممکنہ طور پر اموات میں اضافہ دیکھا جاسکتا ہے۔ تاہم ،عالمی حدت کے باعث رونما ہونے والے ان واقعات کے انسانوں اور ان کی صحت پر ممکنہ طور پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو بچانے کے لیے ممالک کے مختلف علاقوں میں ہیٹ ویو ارلی وارننگ سسٹم نصب کرنے کے ساتھ ساتھ شجرکاری کو ہر سطح پر فروغ دینا ہوگا۔
وزارت کے ترجمان محمد سلیم کاکہنا ہے کہ گزشتہ30سالوں کے دوران پاکستان کے درجہ حرارت میں نصف ڈگری اضافہ دیکھا گیا ہے، جس کے نتیجے میں گرمی کی لہر کے دنوں میں پانچ گُنا اضافہ ہوا ہے۔ تاریخی طور پر گرمی کی لہر کے واقعات مئی اور جون کے مہینوں میں دیکھے جاتے تھے مگر اب ملک میں ہیٹ ویو کے دن مارچ اور اپریل میں بھی رونما ہورہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوامِ متحدہ کے ورلڈ میٹرولوجیکل ڈپارٹمنٹ اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی تحقیق کے مطابق حالیہ صدی کے آخر تک پاکستان میں درجہ حرارت میں تین سے پانچ ڈگری تک کا اضافہ دیکھا جاسکتا ہے، جس کے باعث پاکستان کے معاشی ،سماجی اور صحت کے شعبے بری طر ح متاثر ہوکر رہ جائیں گے۔ اس کے علاوہ ، زرعی پیداوار، سیلابوں، پانی کی کمی ، صحرائیت، سمندری علاقوں میں کٹاؤ، گلیشیر کے پگھلنے کے واقعات میں شدت اور اضافہ دیکھا جاسکے گا۔
بین الاقوامی جریدہ نیچر کلائمیٹ چینج میں چھپنے والی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے محمد سلیم نے کہا کہ اس وقت پاکستان سمیت عالمی سطح پر ہر تین میں سے ایک فرد گرمی کی لہر کے واقعات سے متاثر ہورہاہے۔ تاہم، اس صدی کے آخر تک ہر چار میں سے تین افراد عالمی حدت کے باعث رونما ہونے والی گرمی کی لہر کے واقعات سے بری طرح متاثر ہوگا۔اس تحقیق کے ہوش رُبا نتائج کے مطابق، دنیا کی تیس فیصد آبادی اور دنیا کے کُل رقبے کا تیرہ فیصد علاقہ گرمی کی لہر سے متاثر ہورہا ہے جو اس صدی کے آخر تک اضافے کے ساتھ دنیا کی 74فیصد آبادی گرمی کی لہر کے واقعات سے متاثر ہورہی ہوگی اور دنیا کے کُل رقبے کا تب تک سنتالیس فیصد رقبہ گرمی کی لہر کے واقعات کی زد میں ہوگا۔
ترجمان وزارت موسمیاتی تبدیلی نے مزید کہا کہ خوشی کی بات یہ ہے کہ گرمی کی لہر کے واقعات کے انسانوں اور ان کی صحت پر منفی اثرات پر قابو پانا انتہائی طور پر ممکن ہے۔ گرمی کی لہر کے متعلق بروقت اور بہتر پیش گوئی اور اس کے متعلق عام لوگوں تک معلومات کی بروقت رسائی سے گرمی کی لہر کے منفی اثرات کو بڑی حد تک قابو پاکر لوگوں کی زندگیوں اور صحت کو منفی اثرات سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ، گرمی کی لہر سے نمٹنے کے لیے۔شجرکاری، روف گارڈنگ، چھتوں کی وائٹ واش، پینے کے پانی اور بجلی کی فراہمی کے بہتر انتظامات کی بدولت گرمی کی لہر میں کمی لائی جا سکتی ہے۔