فرغانہ ظہیر الدین بابر کا دیس تھا‘ وہ فرغانہ وادی کے خوبصورت شہر اندیجان میں پیدا ہوا‘وہ امیر تیمور کی چوتھی نسل تھا‘ پوتے کا بیٹا‘ والد سلطان عمر شیخ کبوتر خانے کی چھت تلے دب کر ہلاک ہو گیا‘ بابر کو بارہ سال کی عمر میں تخت پر بٹھا دیا گیا‘ وہ تخت پر بیٹھا اور دنیا بھر کی مصیبتوں نے اس کا گھیراؤ کر لیا‘ بابر کے دو چچا لشکر لے کر چڑھ دوڑے‘ سلطنت کے مختلف عمائدین نے بغاوت کر دی اور محلاتی سازشیں بھی شروع ہو گئیں‘ وہ ابھی بچہ تھا مجبوری نے اسے گھوڑے کی پیٹھ پربٹھا دیا‘وہ میدان جنگ میں اترا اور باقی زندگی لاشیں گنتے گزار دی‘وہ جوانی تک مسلسل دس سال لڑتا رہا‘ ان دس برسوں میں فرغانہ اس کے ہاتھ سے نکلتا اور واپس آتا رہا‘ اس نے دوبار سمرقند اور بخارا فتح کیا اور یہ دونوں مرتبہ اس کے ہاتھ سے نکل گئے۔
وہ سمر قند کو قابو کرتا تھا تو اندیجان پر قبضہ ہو جاتا تھا اور وہ اندیجان کی طرف بھاگتا تھا تو سمر قند اور بخاراہاتھ سے نکل جاتا تھا‘ وہ بالآخر مایوس ہو کر کابل پہنچ گیا‘ 21 سال کی عمر میں کابل فتح کیا‘ تخت پر بیٹھا اور بادشاہ کا لقب پایا‘ وہ 1519ء میں ہندوستان میں داخل ہوا‘ بیجا پور فتح کیا اور پھر آگے بڑھتا چلا گیا‘ 1526ء میں پانی پت کے مقام پر ابراہیم لودھی کو شکست دی ‘ سلطنت دہلی تک وسیع ہو گئی لیکن ہندوستان ابھی اس کے ہاتھ نہیں آیا تھا‘ملک کے زیادہ تر علاقے ہندو راجوں کے پاس تھے‘ رانا سانگا سب سے بڑا حکمران تھا‘ پورا شمالی ہندوستان اس کے قبضے میں تھا‘ رانا سانگا پونے دو لاکھ فوجیوں کے ساتھ بابر کے سامنے کھڑا ہوا‘ خوفناک جنگ ہوئی۔
بابر نے فتح کے بدلے شراب نوشی ترک کرنے اور داڑھی نہ تراشنے کی منت مانی‘ وہ کامیاب ہوا اور اس نے باقی زندگی شراب کے جام کو ہاتھ لگایا اور نہ ہی داڑھی تراشی‘ وہ اس کے بعد آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ ہندوستان کے دو تہائی حصے پر قابض ہو گیا‘اس کی سلطنت بدخشاں سے بنگال اور ہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی‘ وہ 1530ء میں 53 سال کی عمر میں فوت ہو گیااور کابل میں دفن ہوا‘ بابر نے انتقال سے قبل بابر نامہ کے نام سے شاندار کتاب لکھی‘ یہ کتاب دنیا کی بہترین کتب میں شمار ہوتی ہے‘ میں نے یہ کتاب کئی مرتبہ پڑھی‘ بابر نے کتاب میں بار بار اندیجان کا ذکر کیا‘ وہ اس کے موسم‘ پھل‘ جانور‘ پرندوں‘ پہاڑوں اور لوگوں کو بہت ’’مس‘‘ کرتا تھا‘ وہ خربوزہ چکھتا تھا تو ہنس کر کہتا تھا ’’یہ کیا خربوزہ ہے‘ خربوزے تو اندیجان میں ہوتے تھے‘‘ وہ اندیجان کے انگوروں‘ سیبوں‘ خوبانیوں‘ آلوبخاروں‘ آڑوؤں اور ناشپاتیوں کا بھی بہت ذکر کرتا تھا۔
وہ ہندوستان کے بارے میں کہتا تھا ’’یہ کیا زمین ہے جس پر برف ہی نہیں پڑتی‘‘ بابر نے بھینس نہیں دیکھی تھی‘ وہ ہندوستان کی بھینسوں پر بہت ہنستا تھا‘ اسے یہاں کی گرمی‘ حبس‘ کیچڑ‘ مکھیاں‘ مچھر اور ہیضہ بھی تکلیف دیتا تھا‘ وہ ہندوستان کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا ہندوستان اب اس اور اس کی آل اولاد کا وطن ہے چنانچہ اس نے ہندوستان میں چھوٹا سا ازبکستان آباد کر دیا‘ سینٹرل ایشیا کے معمار بلائے اور ہندوستان میں شاندار محلات‘ باغات اور مساجد بنوا دیں‘ یہ عمارتیں آج بھی قائم ہیں اور یہ تاریخ کے حافظے سے ظہیر الدین بابر کومحو نہیں ہونے دے رہیں۔
میں بابر کا فین ہوں‘ میں جب بھی ازبکستان گیا فرغانہ اور اندیجان میری فہرست میں شامل تھے لیکن بدقسمتی سے فرغانہ ہر بار پیچھے رہ گیا ‘ میری یہ خواہش 4 دسمبر کو پوری ہو گئی‘ ازبکستان میں 4 دسمبر کو صدارتی الیکشن تھے‘ ازبک حکومت نے مجھے ’’انٹرنیشنل آبزرور‘‘ کی حیثیت سے الیکشن کا عمل دیکھنے کی دعوت دی‘میں نے دعوت قبول کر لی‘ مجھ سے پوچھا گیا‘ میں کس شہر میں الیکشن کا عمل دیکھنا چاہتا ہوں‘ میں نے قرشی‘ شہر سبز اور فرغانہ کا نام لکھ دیا‘ میں جمعہ کی صبح تاشقند پہنچا‘ جمعہ تاشقند کی نئی مسجد اسلام عطاء میں ادا کیا‘ یہ پانچ سو سال پرانی مسجد تھی‘یہ ماضی میں شاہراہ ریشم پر واقع تھی‘‘ اسلام کریموف کی صاحبزادی نے پرانی کی جگہ نئی مسجد بنوا دی۔
یہ مسجد اسلام کریموف کے انتقال کے بعد ان کے نام سے منسوب کر دی گئی‘ مسجد انتہائی خوبصورت اور سہولتوں سے آراستہ ہے‘ دیواروں پر سونے سے آیات تحریر ہیں‘ گنبد دل آویز اور دروازے شاندار ہیں‘ تاشقند میں الائی بازار اور سمرقند دروازہ دو نئے ایڈیشن ہیں‘ الائی بازار بھی قدیم مارکیٹ تھی‘ حکومت نے یہ مارکیٹ دوبارہ بنائی اور کمال کر دیا‘ سمر قند دروازہ جدید ترین مال ہے‘ میں ہفتے کی صبح قرشی اور شہر سبز گیا اور اتوار کی صبح فرغانہ روانہ ہو گیا‘ فرغانہ سوات جیسی وادی ہے‘ چاروں اطراف برف پوش پہاڑ ہیں اور درمیان میں سرسبز فرغانہ‘ شہر جدید‘ صاف ستھرا اور سہولتوں سے آراستہ ہے‘ یہ شہر انیسویں صدی میں روسیوں نے آباد کیا ‘ یہ جگہ اس سے قبل صرف وادی تھی۔
روسیوں نے زار کے دور میں1868ء میںفرغانہ پر قبضہ کیا‘ نیا شہر آباد کیا‘ فوجی چھاؤنی بنائی اور یہاں سے سینٹرل ایشیا پر یلغار شروع کر دی‘ شہر میں آج بھی روسی ساختہ عمارتیں‘ بیرکیں اور سڑکیں موجود ہیں‘ فرغانہ کا ’’اوپراہاؤس‘‘قابل دید ہے‘ یہ عمارت فیکٹری تھی‘ اسلام کریموف نے فیکٹری شہر سے باہر شفٹ کی اور یہاں یورپی اسٹائل کا ’’اوپرا ہاؤس‘‘ بنا دیا‘ ہم فرغانہ سے ’’کوقند‘‘ روانہ ہوئے‘ کوقند کبھی اس پورے علاقے کا دارالحکومت تھا‘ کوقند کی ریاست کرغیزستان‘ تاجکستان اور فرغانہ سے لے کر سمر قند اور بخارا تک پھیلی تھی‘ بابر نے بھی اپنی کتاب میں اس شہر کا ذکر کیا تھا‘ یہ شہر تاجکستان کی سرحد پر واقع ہے‘فرغانہ سے کوقند تک راستے میں دونوں طرف سیب‘ انگور‘ آڑو‘ خوبانی اور آلوبخارے کے میلوں لمبے باغات ہیں‘ یہ باغات پہاڑوں کی اترائیوں سے لے کر سڑکوں تک پھیلے تھے۔
سردی کی وجہ سے درختوں کے پتے جھڑ چکے تھے لیکن باغات اس کے باوجود دل کو کھینچ رہے تھے‘ مجھے میزبانوں نے بتایا بہار اور گرمیاں فرغانہ کے بہترین موسم ہیں‘اس وقت وادی کی شان ہی مختلف ہوتی ہے‘ راستے میں مرغلیان کا قصبہ آیا‘ بابر نے بھی اس قصبے کا ذکر کیا‘ یہ قصبہ دو حوالوں سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے‘ پہلا حوالہ حضرت برہان الدین المرغینانی ہیں‘ یہ فقہ کی مشہور کتاب الہدایہ کے مصنف ہیں‘ دوسرا حوالہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پوتے اور پوتی ہیں‘ یہ دونوں خلفاء راشدین کے زمانے میں کبوتروں کی ایک جوڑی کے ساتھ مرغلیان تشریف لائے اورشہر میں تبلیغ کا کام شروع کیا‘ ان کا مزار اور کبوتروں کی نسل آج بھی یہاں موجود ہے‘ میں ان کے مزارات اور حضرت برہان الدین کی چلہ گاہ کی زیارت کے لیے رک گیا‘ مزار پر نور کی چادر تنی تھی‘ کوقند وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا‘کوقند شہر میں شاہی محل کا صرف ایک حصہ باقی ہے۔
یہ کوقند کے آخری مسلمان بادشاہ خدایار خان کا محل تھا‘ روسیوں نے 1875ء میں یہ محل اور کوقند کا اقتدارخدا یار خان سے ہتھیا لیا‘ محل میں گزرے وقت کی شان و شوکت آج بھی باقی تھی‘خدا یار خان کی 45 بیویاں تھیں‘ یہ سلطنت اگر بادشاہ کی اتنی مصروفیت کے بعد بھی قائم رہتی تو یہ معجزہ ہوتا لیکن قدرت کو یہ معجزہ منظور نہیں تھا چنانچہ سلطنت اور بادشاہ دونوں رخصت ہو گئے اور کہانیاں پیچھے رہ گئیں‘ کوقند میں دھند اور سردی تھی‘ہم نے اس سردی اور دھند میں نصف درجن پولنگ اسٹیشنوں کا دورہ کیا‘ میں الیکشن سے ایک دن قبل تاشقند‘ قرشی اور شہر سبز کے پولنگ اسٹیشن بھی دیکھ چکا تھا‘ مجھے ہر جگہ ہر چیز نظم ونسق میں دکھائی دی‘ کسی جگہ کسی قسم کی گڑ بڑ یا افراتفری نہیں تھی‘ شہروں میں بینر‘ چاکنگ‘ جلسے اور جلوس نہیں تھے‘ چار صدارتی امیدوار تھے‘ چاروں کے پوسٹر پولنگ اسٹیشنوں کی دیواروں پر چسپاں تھے۔
پولنگ اسٹیشنوں میں چاروں کے نمایندے بھی موجود تھے‘ ووٹرز آتے تھے‘ بیلٹ پیپر لیتے تھے‘ بوتھ کے اندر کھڑے ہوکر مہر لگاتے تھے اور اپنا ووٹ ہال کے درمیان میں پڑے باکس میں ڈال دیتے تھے‘ باکس ٹرانسپیرنٹ پلاسٹک کا بنا تھا‘ ووٹ صاف دکھائی دیتے تھے‘ میرا ذاتی خیال تھا ازبکستان کے وزیراعظم اور قائم مقام صدر شوکت مرزی یوئیف الیکشن جیت جائیں گے‘ میری آبزرویشن کی دو وجوہات تھیں‘ یہ 20 سال اسلام کریموف کے ساتھ رہے چنانچہ یہ امور سلطنت سے واقف تھے‘ دوسرا عوام بھی وزیراعظم کی حیثیت سے ان کی کارکردگی اور اپروچ سے مطمئن تھے چنانچہ میرا خیال تھا یہ الیکشن جیت جائیں گے اور میرا یہ خیال دو دن بعد سچ ثابت ہوا‘ شوکت مرزی یوئیف88.6فیصد ووٹ حاصل کر کے ازبکستان کے نئے صدر منتخب ہو گئے۔
میں ٹرین کے ذریعے کوقند سے تاشقند واپس آیا۔ یہ ٹرین بھی انسانی معجزہ تھی‘ اسلام کریموف نے ٹرین یہاں تک پہنچانے کے لیے سو کلو میٹر پہاڑ کاٹا ‘ پٹڑی بچھائی اور کوقند اور تاشقند کو آپس میں جوڑ دیا‘ یہ معجزہ صرف دو برس میں مکمل ہوا‘ مرحوم صدر ٹرین کے ذریعے کوقند جانا چاہتے تھے لیکن موت نے انھیں اجازت نہ دی‘ آج سیکڑوں لوگ روزانہ اس ٹرین پر سفر کرتے ہیں اور اسلام کریموف کو دعائیں دیتے ہیں‘ ٹرین آرام دہ اور سبک خرام تھی‘ میرے دل سے بھی مرحوم صدر کے لیے دعا نکلی‘ اللہ تعالیٰ انھیں جوار رحمت میں جگہ دے‘یہ میرا بابر کے دیس سے صرف تعارف تھا‘ میں بہت جلد دوبارہ فرغانہ جاؤں گا۔