لاہور: عام انتخابات 2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی جانب سے حصہ لینے والوں میں بھٹو برادری کا ایک بھی فرد تاحال شامل نہیں کیا گیا۔ ٹکٹوں کی اس تقسیم کو پیپلز پارٹی مخالفین محض اتفاق تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں اور ماضی میں مارشل لاء کے خلاف جدوجہد کرنے اور مرکزی و صوبائی اسمبلیوں میں سندھ کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنے والے بھٹو خاندان کے افراد کو نظر انداز کیا جانا باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رکن قومی اسمبلی رہنے والے محمد انور بھٹو، محمد علی خان بھٹو اور شاہد بھٹو کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے نظریے میں بھٹو ازم پہلے دن سے ہی شامل ہے۔ بھٹوازم پیپلزپارٹی میں اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کو اپنے بیٹے بلاول زرداری کے نام کے ساتھ بھی بھٹو لگانا پڑا اگرچہ زرداری خاندان پہلے روز سے ہی پیپلز پارٹی میں سرگرم رہے۔ حاکم علی زرداری کا شمار پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں کیا جاتا ہے۔1967میں پیپلز پارٹی بننے کے بعد 1970 میں ہونے والے پہلے انتخابات میں حاکم علی زرداری پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی پر حاکم علی زرداری اور ذوالفقار علی بھٹو کے مابین اختلافات پیدا ہوئے اور یہ اختلافات اس وقت عروج پر پہنچے جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 کے انتخابات میں حاکم علی زرداری کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا جس کے بعد حاکم زرداری نے پیپلز پارٹی چھوڑ کر نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔
بھٹو کو پھانسی دئیے جانے کے بعد حاکم علی زرداری 1980 میں دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے۔ بھٹو خاندان میں اختلافات کی بڑی وجوہات میں سے ایک وجہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے زرداری خاندان کے ساتھ مراسم بھی ہے۔ 2002 کے الیکشن میں محمد انور بھٹو کو آخری بارپیپلز پارٹی کا ٹکٹ این اے 204 سے دیا گیا۔ بینظیر کی وفات کے بعد پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ان کے لیے خواب ہی رہا۔ اسی طرح شاہد بھٹو کو آخری ٹکٹ 2008 میں دیا گیا۔ 2013 میں پی ایس 37 سے الیکشن لڑنے والے بھٹو خاندان کے فرد محمد علی بھٹو کا پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے 2013 کا الیکشن آخری الیکشن ثابت ہوا۔ 2018 کے الیکشن کے لیے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت بھٹو خاندان کے کسی بھی فرد کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ۔ جس پر جی ڈی اے کے اہم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ زرداری نے اپنے والد کو ٹکٹ نہ دینے کا بدلہ لیتے ہوئے آج پیپلز پارٹی سے بھٹو کا نام مٹا دیا بلکہ بھٹو کے نام پر سیاست کرکے میدان میں آنے والوں نے بھٹو کو سندھ میں آج ماردیا۔