جہانگیر بدر13اور 14نومبر کی درمیانی شب انتقال کر گئے۔ خونی رشتے ہوں یا سماجی، قانونِ قدرت، ہم چاہیں نہ چاہیں، پر راضی برضا رہنے اور تسلیم کرنے کو بے بس و مجبور! ہمارے غم اور ہماری یادیں وقت کے دھارے میں بہتے بہتے کسی ایک موڑ پہ ٹھہر جائیں گی، وہ گھڑی جب انسان اپنے غموں اور یادوں کے اندوختے اپنی ذات کے توشہ خانے میں جمع کرلیتاہے۔ یہ سلسلہ دراز ہے، صدیوں سے اس کا چلن ہے، صور پھونکے جانے کی آواز تک اس تسلسل کی مدت کا تعین کردیا گیا ہے!
افراد کی اکثریت انفرادی زندگی گزارتی ہے، منفرد وہ رہتےہیں جنہیں انفرادیت کے جلو میں اجتماعیت کی ہمرکابی بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ جہانگیر بدرایسی ہی توانا و بیدار شخصیت تھے۔ بہت ہی جاندار، بہت ہی بھرپور، تصدیق کے لئے ریفرنسوں کاشمارضرورت سے زیادہ ہے۔ طالب علمی سے لے کر کارکن نما سیاسی رہنما بننے تک، ہرگام پر یہ تصدیق اپنے پورے وجود کے ساتھ قیام پذیر ہے۔ کچھ نام جن سے آج کے عہد میں بھی موجود ہم لوگ، جہانگیر کی 60، 70کی دہائیوں والے لوگ، خوب آشنا ہیں مثلاً جاوید ہاشمی، لیاقت بلوچ، حفیظ خان، امتیاز عالم، حافظ ادریس، شیخ رشید، پرویزرشید، شاید دسیوں اور بھی اسی قطارمیں نظر آتے ہیں۔ سب نہ یاد رہے نہ اتنی تفصیل کا کالم متحمل ہوسکے۔ جہانگیر بدراسی صف کے سالاروں میں سے تھے۔ دائیں اور بائیں بازو کی نظریاتی کشمکش کا آغاز تھا۔ ملک میں فکری جوش و خروش اور تقسیم بھی واضح ہوتی جارہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستانی عوام کے تہذیبی، سماجی، سیاسی، روحانی، قومی اور نظری اجتماعیت کے مکمل نمائندےاور ترجمان کے طور پر ابھرے۔ مقابلے میں مذہبی جماعتوں، وائٹ کالر درمیانی طبقے اورہر قسم کے سرمایہ داروں اور تاجروں نےاپنے لشکروںکو جمع کرلیا۔ عجب فنامنا ہے۔ پاکستان کے اس نظریاتی سیلاب میں ایک بہت بڑی انہونی وائٹ کالر درمیانی طبقے کی بہت بڑی تعداد کا ذوالفقار علی بھٹو کے قافلے میں شامل ہو جانے سے ہے۔ بھٹو صاحب کے مقابل صف آرا طبقے جن میں ’’مذہب‘ ‘کے علمبردار اور عملدار شاید بھٹو مخالف قوتوں کا موثر اور طاقتور ترین ہتھیار تھے۔ وہ پاکستانیوں کو خدا کے نام پر اپنی مذہبی تعبیروں کے سانچے میں ڈھالنا چاہتے تھے۔
سینئراینکرپرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا ’’جہانگیر بدر ایک عہد کا نام تھا، جو اپنے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اب یہ دوبارہ زندگی کے منظر پر شاید کبھی نہ ابھر سکے‘‘ اسی موقع پر جب میزبان نے سوال کیا تب عاجز نے بات آگے بڑھائی۔ عرض کیا ’’سہیل وڑائچ صاحب نے ایک جملے میں پاکستان کے سیاسی سفر کے مرکزی پہلو کو سمو دیا ہے۔ خاکساراسی تناظرمیں ایک اور جہت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے یہ کہ دراصل جہانگیر بدر ایوب خان، یحییٰ خان، جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے غیرآئینی وجودوں کی نفی کا نام تھا۔ اسے پاکستانی قوم کے اس سیاسی جدوجہد کے نگینے کا ایک چمکتا دمکتااستعارہ سمجھ لو جس کا تعلق پاکستانی عوام کی جانب سے ان غیر آئینی وجودوں کو مجموعی طور پر قبول نہ کرنے سے ہے!‘‘
ضیاء الحق اپروچ نے ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ کیا سلوک کیا اس کی تفصیل پر سینکڑوں صفحات لکھے جاچکے ، وقت نے ضیاء کو تاریخ کا قبرستان اور ذوالفقار علی بھٹو کو تاریخ کا جہان ثابت کردیا۔ جہانگیر بدر جیسے نظریاتی سیاسی کارکن اسی جہان تازہ کی نمو تھے۔ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی یہ قیمتی متاع بکثرت موجود تھی۔ مذہبی جماعتوں میں بھی ان کی ہستی سے انکار ممکن نہیں لیکن ریاست اورسوسائٹی کی حکمرانی، فعالیت کسی مذہبی تنظیم یا کارکن کے سپرد کردینے کا مطلب اس ’’سماج‘‘ کی زندہ موت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس لئے ہم ان کارکنوں کی نظریاتی عظمت تسلیم کرنے کے باوجود انہیں ضیاء الحق اپروچ کے بے برکت شب و روز کا جزو ہی گردانیں گے۔ چنانچہ ان کی عظمتیں اپنی جگہ اور ان کے فکر و خیالات کے سفر کابالآخر ’’قبرستان‘‘ جیسے انجام سے دوچار ہونا، قانون فطرت کی کار فرمائی ہی رہے گا۔
قیام پاکستان کے چند برس بعد نہیں قائداعظمؒ کی ایمبولنس کے کراچی کی سڑک پر منتظر رہنے کے ساتھ ہی ’’بے ساختہ سچ‘‘ بولنے کی گنجائش ختم ہونے کا آغاز نہیں ہوا تھا، گنجائش ہی ختم ہوگئی تھی یا صاحب ِ نظر لوگوں کو پتہ چل گیا تھا۔ پاکستان میں قومی اور نظریاتی واقعات و معاملات میں ’’بے ساختہ سچ‘‘ کے ملکی سالمیت کے مکمل تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنے کے باوجود بولنا ممکن ہی نہیں اس لئے کہ مذہب پرستوں نے اپنی خودساختہ ’’ایمانیات‘‘ کے آئینے میں انسانوں کے ’’ایمانی‘‘ فیصلے کرنا شروع کردیئے تھے۔ یہ دہشت گردی کے ’’بیانیے اورانسداد‘‘ کے پس منظر میں قریب قریب پھیلے اس پندرہ برسوں میں جو کچھ کہا جارہا ہے، جو اسباب بیان ہوتے ہیں، بے ساختہ سچ، اس کے مرکز میں ہے، وہ کوئی نہیں ’’بول‘‘ سکتا خواہ وہ عام پاکستانی ہو یا کسی ریاستی ادارے کا طاقتور ترین فرد، قلمکار بھی اسی قبیلے میں شامل ہے۔ یہ دہشت گردی کن لوگوں کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ جو کوئی بھی اس میں شامل ہے، بہرطور ضیاء الحق کی بے برکت اپروچ نے اسے پاکستانیوں کی آئندہ جانے کتنی نسلوں تک ان کے لئے ایک ’’واجب الادا‘‘ قرض بنا دیا ہے۔
بات محض پاکستانی سیاست میں سیاسی کارکن کے ناگزیر مثبت کردار کی نہیں، ضیاء اپروچ میں پیداشدہ ’’کلچر‘‘ کے اس برگ و بار کے اردگرد گھومتی ہے جس نے بالآخر آج پاکستان کو انتشار و فساد کی آماجگاہ میں ڈھال دیا ہے۔ باقی سب تاریخ ہے۔ عالمی برادری کے ساتھ اور عالم تمام میں ہم نے کیا کیا، اس کے لئے کسی کو رائے دے کر خود کو خطرے میں نہیں ڈالناچاہئے بالکل اسی طرح جیسے ’’دہشت گردی‘‘ کے سلسلے میں ’’بے ساختہ سچ‘‘ کا اظہار آپ کو خراج زندگی کے مقام پر لاسکتا ہے۔ وقت خودبخود ہمارے اجتماعی اعمال کی فصل کاشت کر رہا ہے۔ چاہے پیش گوئیاں کرلو چاہے پوری دنیا کو راندۂ درگاہ کہتے رہو فطرت کے قوانین ہماری گھات میں مکمل طور پر سرگرم عمل ہوچکے ہیں!
پاکستان میں سیاسی زوال کا سفر مکمل ہونے کو ہے۔ ایسا لگتا ہے جہانگیر بدر، جب ان کا نام لیا جاتا ہے، اس سے مطلب پاکستان کے آئینی سفر کے تمام کرداروں سے ہے، کی تگ و تاز کے سر اٹھانے کا ماحول تشکیل پانے کو ہے۔ جو روشنی ضیاء الحق کی اپروچ نے گل کردی تھی، جہانگیر بدر، جیسے تاریخی اثاثے اسے روشن کرکے رہیں گے۔ پاکستان میں آئینی کاروبار ِ مملکت کی حاکمیت، اسٹرٹیجی اور پیش گوئیوں پر حاوی ہوکے رہے گی۔
جہانگیر بدر کو پوری قوم کے قومی نمائندوں نے اکٹھے ہو کر رخصت کیا۔ یہ کون سا پیغام ہے، یہ پاکستان میں 65,64برس کے ظاہری و باطنی غیرآئینی کرداروں کی نفی کا پیغام ہے۔ یہ آئینی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل کو جاری رکھنے کے عزم کا پیغام ہے جس کا ایک تاریخی پیغامبر جہانگیر بدر بھی تھا۔
بشکریہ جنگ