عدالرئوف
’’تو کہانی کچھ یوں شروع ہوتی ہے۔ ‘‘یاور حیات اپنی مونچھوں کو بل دیتے ہوئے شروع کرتا۔ ’’ایک ٹرین ایک ویران جنگل میں خراب ہو جاتی ہے۔ ٹرین کا ڈرائیور مسافروں سے کہتا ہے کہ انجن فیل ہو گیا ہے۔ میرے پاس ہیڈکوارٹر سے رابطہ کے لئے کوئی سہارا نہیں سو مجھے چل کر جانا پڑے گا۔ وہ پیدل ہی متبادل انجن لینے کے لئے چل پڑتا ہے۔ مسافر کچھ دیر کو ڈبوں میں انتظارکرتے ہیں اور پھر ان میں سے کچھ منچلے نیچے آ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں۔ جنگل میں ریوڑ چراتے ایک چرواہے سے ان کی ملاقات ہوتی ہے اور وہ اسے اپنی ٹرین کے خرا ب ہونے کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ چرواہا فوراً اپنے گائوں جا کر لوگوں کو اس کے بارے میں بتاتا ہے۔ گائوں سے خوانچے والے کھانے پینے کا سامان لے کر آ جاتے ہیں۔مسافر ان سے سامان خریدتے ہیں۔ ایک دن گزر جاتا ہے، ڈرائیور ابھی تک واپس نہیں آیا۔ دوسرے روز گائوں والے اورزیادہ سامان لے کر ٹرین تک آتے ہیں۔ خریداری بڑھ جاتی ہے۔ ایک دو خوانچے والے اپنا کھانے پینےکاسامان لے کر رات بھی ادھر ہی رک جاتے ہیں۔ ڈرائیور تیسرے دن بھی واپس نہیں آتا۔ بعض خوانچے والے اس علاقے میں جھونپڑیاں بنا لیتے ہیں۔ ڈبوں میں بیٹھے مسافر بھی ٹرین سے اتر کر ان گائوں والوں سے بستر لے کر نیچے سونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بچوں کے دل بہلانے کو جھولوں والے بھی آ جاتے ہیں اور گویا جنگل میں منگل کا سا ساماں ہونے لگتا ہے…..‘‘ کہانی آگے بڑھتی ہے۔ یاور حیات اسی انداز میں ایک خوبصورت سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے دور خلائوں میں گھورتےہوئے اپنی کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ اس کی بے شمار کہانیاں مختلف رائٹرز کے نام پرزبردست سیریل بنیں لیکن اس نے کبھی ان پر اپنے رائٹر ہونے کا حق نہیں جتایا۔ ’’جھوک سیال‘‘ہو ’’سمندر‘‘ یا کوئی اور سیریل، کہانی زیادہ تر اسی کی ہوتی تھی۔ جب وہ بیان کر رہا ہوتا تو یوں لگتا کہ وہ اپنے بیان کردہ کرداروں میں سے ہی کوئی ایک کردار ہے۔ جاندار، انتہائی جاندارکردار۔
’’چن جی!‘‘ وہ شروع ہوتا ’’فرض کرو اُسامہ بن لادن کی تصویر کسی کے پاس نہیں۔ ایک اخبار اپنی اشاعت بڑھانے کے لئے ایک انتہائی موڈی اور اچھےفوٹوگرافر کو جو بیروزگارہے اُسامہ بن لادن کی تصویر کھینچ کر لانےکے لئے اچھے معاوضہ پر افغانستان بھیج دیتا ہے۔ وہ فوٹوگرافر اپنے کیمرہ سمیت دوسرے سامان کے ساتھ افغانستان میں بس پر سفر کرتارواں ہے کہ راستے میں ان کی بس پنکچر ہو جاتی ہے۔ مسافرگرمی کے مارے بس سے نیچے اتر کر انتظار کررہے ہیں۔ فوٹوگرافر کو دور کچھ بچے کھیلتے نظر آتے ہیں۔ وہ ان کی طرف فوکس کرتا کیمرہ لے کر بڑھتا ہے۔ قریب ہی ایک ہینڈپمپ لگا ہے۔ وہ اپنا کیمرہ بکس قریب رکھ کر اپنا سر دھونا شروع کردیتا ہے مگر جیسے ہی سر دھو کر کیمرہ بکس اٹھانے کو بڑھتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ کیمرہ بکس اب وہاں نہیں ہے۔ پریشانی کے عالم میں وہ اِدھراُدھر دیکھتا ہے۔ بس روانگی کے لئے تیار ہے مگر اس کے پاس اس کا کیمرہ نہیں ہے…..‘‘
’’آگے کیا ہوتاہے؟‘‘ ہم حیرت زدگی کے عالم میں پوچھتے ہیں تو یاور حیات مسکراہٹ کے ساتھ کہتا کہ ’’آگے سوچو کیا کچھ ہوسکتا ہے۔‘‘
میری پہلی ملاقات یوں تو یاور حیات سے 1974میں ہوئی جب میں بی اے کے بعد انٹرن شپ کے لئے پی ٹی وی آیا۔ یاور حیات کون ہے؟ کیا ہے؟ حیرت زدگی کے عالم میں ہر پروڈیوسر اور ہیروئین سوال کرتی نظر آئی۔ دیکھنے میں وہ خود ایک انتہائی خوبصورت ہیرو کی طرح تھا۔ وجیہہ، لمبا قد، بڑی بڑی آنکھیں اور ایسی بھرپور مونچھیں کہ عرب اسے ابوشوراب یعنی مونچھوں کا باپ کہہ سکتے تھے۔ میں اپنے ایک دو دوستوں کے ساتھ مسلسل اس کوشش میں رہتا کہ کسی طرح یاور حیات سے ملاقات کرسکوں۔ بات کرسکوں مگر وہ تو بس ایک مسٹری تھا۔ لوگوں میں رہتا ہوا بھی لوگوں سے دور۔ اس کے کمر ےمیں رائٹرز اور ہیروئینوں کا میلہ لگا رہتا مگر شاید ہیروئینوں سے وہ دور ہی رہتا۔ ان سے بات کرتا اور وہ اس کی محبت میں گرفتار اس کی طرف کھنچی چلی آتیں مگر وہ معشوق صفت تھا کبھی عاشق نہ بن پایا۔
مجھے اس سےملاقات کا شرف 1986میں ملا جب میں ایک اشتہاری کمپنی میں ملازم تھا اور وہ وہاں منوبھائی کے ساتھ اپنے شہرہ ٔ آفاق ڈرامے ’’گمشدہ‘‘ کی کہانی لکھنے کے لئے آیا کرتا۔ اس تمام سیشن میں، میں اس کے ساتھ ہی رہا۔ کہانی کے شروع سے آخر تک جس طرح وژن کے ساتھ وہ کہانی بیان کرتا وہ کچھ اسی کا خاصا تھا۔ کرداروں کی ساخت، ان کے گول، تضاد، گول کی طرف بڑھنا، راستے کی رکاوٹیں، کرداروں کی سوشیالوجی، سائیکولوجی، فزیولوجی، وہ ہر چیز بیان کرتا چلا جاتا۔ یہ اب لکھنے والے اور اس سے سیکھنے والوں پر منحصر تھا کہ وہ کس حد تک اس سے سیکھ پاتے مگر وہ کمال کاکہانی بیان کرنے والا تھا۔
40برس تک اس نے پی ٹی وی ہی نہیں بلکہ اس ملک میں ڈرامہ کو بام عروج تک پہنچایا۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اگر اس کی خواہش بھی تھی کہ وہ اپنا فن دوسروں تک منتقل کرسکے تو اس کے راستے میں خود پی ٹی وی کے بونوںاور کمرشل ٹی وی چینلز رکاوٹ بنے۔ ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘ ٹائپ ڈراموں سے متاثر ہوئے نہ اس سے کچھ سیکھ پائے اور شاید نہ ہی کبھی اب سیکھ پائیں گے۔ ڈرامہ اب اس طرح کے لوگوں کی دسترس سے نکل کر بے ادب لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ یاور حیات کی موت سے بہت پہلے ڈرامہ انتقال کرچکا تھا۔