آرز
دھڑکنوں کی بانہوں میں
آو گھر بنائیں ہم
پھر وہ گھر سجائیں ہم
اپنا پیار میں لاؤں
اپنا روپ تم لانا
چھاؤں لے کر میں آؤںو کی راہوں میںنرم دھوپ تم لانا
گزشتہ کچھ ہفتے سے سوشل میڈیا پر مرد و خواتین میں یہ مقابلہ جاری ہے کہ کھانا کون گرم کرے گا اور تندور سے روٹیاں کون لے کر آئے گا۔ ایسے میں میرے ذہن کی پردہ اسکرین پر یہ گانا چلنا شروع ہوگیا اور میں اس سوچ میں محو ہو گیا کہ میاں بیوی کا رشتہ تو محبت اور ایثار سے عبارت ہے، اس میں موازنہ اور مسابقت کی سوچ کو کیوں پھیلایا جا رہا ہے؟ بلاشبہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے حقوق کی جنگ کو جاری رہنا چاہیے، تاہم عورت کھانا گرم کرنے سے کہیں بڑے مسائل کا شکار ہے۔ ہمارے ہاںایسے علاقے موجود ہیں جہاں عورت کو انسان کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے۔
ہم کوئی ایسا پیمانہ یا فارمولا تو نہیں بنا سکتے جس کی روشنی میں یہ کہہ سکیں کہ ذمہ داریوں کی یہ فہرست مرد کے ذمہ ہے اور یہ عورت کے۔ کسی بھی گھر کے اندر مرد و عورت کے باہمی رشتے میں جب بھی ذمہ داریوں کا تعین کرنا ہو تو یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ وہ دونوں معاشرے کے کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بسا اوقات میاں بیوی کا تعلق کسی حد تک بے جوڑ بے۔ ہو سکتا ہے مثلاً بیوی بہت زیادہ پڑھی لکھی ہو اور اچھی ملازمت بھی کر رہی ہو اور شوہر کی قابلیت کم ہو۔ یا پھر شوہر بہت قابلیت رکھتا ہو اور بیوی اس کے ہم پلہ نہ ہو۔ ایک مثالی رشتہ ان باتوں سے بڑھ کر ہونا چاہیے۔ میاں بیوی میں سے زیادہ قابلیت والا اگر سمجھدار ہو تو اپنے شریک حیات کو بھی اپنے جیسا بنا سکتا ہے۔ خیر یہ تو ایک مثالی صورتحال کا ذکر ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسی بے جوڑ شادیاں ہوتی ہیں، سمجھدرار میاں بیوی اس خلیج کو کم کر ایک کامیاب زندگی بھی گزارتے ہیں۔
بدقسمتی سے دیکھا گیا ہے کہ جوڑ کی شادیوں میں بھی اکثر مسائل پیش آتے ہیں۔ اس کی وجہ دوسرے فریق کو بے جوڑ ثابت کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ شادی کرنے سے پہلے ہی ضروری ہے کہ شادی کے بعد کی زندگی میں میاں بیوی کا کردار واضح ہو۔ خاص طور پر مرد کے لیے، اگر وہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی سے شادی کر رہا ہے تو دونوں کے لیے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر گھر سنبھالے گی یا ملازمت کرے گی۔ جب کسی گھر میں میاں بیوں دونوں ہی ملازمت کر رہے ہوں تو وہاں اس بات کی بحث نہیں ہونی چاہیے کہ کھانا بیگم نے گرم کرنا ہے یا شوہر نے۔ ایسے میں دونوں کو گھر کے کام مل جل کرنے چاہیں۔ تعلیم یافتہ میاں بیوی اگر ملازمت کرتے ہیں تو یہ ان کا حق ہے، کیونکہ وہ اس کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اور وہ گھر میں کوئی ملازمہ رکھ کر اس کے روزگار کا سبب بن سکتے ہیں اور ساتھ ہی تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے اپنی اور معاشرے کی بھلائی کے لیے کوئی کردار سر انجام دے سکتے ہیں۔
میرے خیال میں تعلیم یافتہ خواتین کو گھر کی چاردیواری میں قید رکھنا زیادتی ہے۔ انہیں یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ اپنی تعلیمی قابلیت کا بہتر استعمال کرسکیں۔ مردوں کو بھی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کیونکہ خواتین کی خود انحصاری کسی بھی خاندان کو معاشی طور پر مستحکم کرتے ہوئے فرد واحد پر انحصار کرنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ بیوی کا ملازمت کرنا اور اس کے بعد میاں بیوی کا مل کر گھر میں کام کرنا بہتر ہے، بجائے اس کے کہ شوہر کوئی پارٹ ٹائم ملازمت یا پروجیکٹس کرے۔ آج کل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثر لوگ دو ملازمتیں کرنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔ ایسے میں دوسری ملازمت کرنے سے گھر میں مل جل کر کام کر لینا کہیں زیادہ خوشگوار تجربہ ہو سکتاہے، تاہم سوچ کی وسعت ہونا ضروری ہے۔
خواتین کا ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو کہ گھر میں رہنے اور گھر کے کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ایسے گھرانوں میں دیکھا گیا ہے کہ جہاں بیگمات شوہر کی پروفیشنل زندگی میں زیادہ دخل نہیں دیتیں، وہاں زندگی خوشگوار گزرتی ہے؛ تاہم اعتدال یہاں بھی ضروری ہے۔ بیگم یا شوہر کا ایسی مسابقت میں پڑھ جانا کہ شوہر گھر کے لیے زیادہ قربانی دے رہا ہے یا بیوی؟ دراصل یہ موازنہ ہی تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔
مردوں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ شادی سے پہلے ہی اس متعلق بلکل واضح ہوں کہ شادی کے بعد انہوں نے بیوی سے کیسے نباہ کرنا ہے، اور بطور شوہر ان کی ترجیحات کیا ہونگی۔ میاں بیوی نے گھر کو مل کر چلانا ہوتا ہے۔ جہاں احساس، ایثار اور محبت کے جذبے گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھتے ہیں۔ میاں بیوی آگے بڑھ کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں ایک دوسرے کی ذمہ داری اور مجبوری کا خیال کرسکتے ہیں، نہ کہ یہ حساب کتاب شروع ہو جائے کہ سالن کون پکائے گا اورروٹی کون بنائے گا؟