لاہور (ویب ڈیسک) علاقے میں ’رئیس وڈا‘ یعنی بڑا رئیس کے نام سے پکارے جانیوالے آصف زرداری کے بارے میں عموماً کہاجاتا تھا کہ اسکے دو ہی ٹھکانے ہیں جیل یا پھر ایوان اقتدار! اسی کے بیچ سیاست کے اس دلچسپ کردار کی زندگی گزری ہے۔ بے نظیر بھٹو کے ساتھ شادی نے ان کا مقدر بدل دیا۔ نامور کالم نگار محمد اسلم خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ زندگی بدل دی اور شاید اور بھی بہت کچھ بدل کر رکھ دیا۔ وہ نامعلوم سے معلوم بلکہ شہرت کے بام عروج تک پہنچے۔ انکی وجہ شناخت بدقسمتی سے مثبت نہیں منفی رہی۔ کبھی شاطر اور چرب زبان حسین حقانی نے انہیں ’مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کا لقب دیا ۔وہ دس فیصد کمشن لینے والے مشہور ہوئے، کبھی ان پر الزام لگا کہ انہوں نے ’کرپشن کے دریا بہادئیے ہیں‘، کبھی کہاگیا کہ ان جیسا شاطر سیاستدان کوئی نہیں۔ کبھی ان کی شہرت ’ایک زرداری سب پہ بھاری‘ بنی اور کبھی کہاگیا کہ وہ ایک ’کریمنل‘ ہیں۔ان منفی حوالوں میں مثبت حوالہ یہ ہے کہ وہ ’یاروں کا یار‘ ہے۔ جس مقدمے میں اس مرتبہ ان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے وہ کوئی معمولی مقدمہ نہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی سکینڈل ہے جس کے بارے میں کوئی شک نہیں کہ اربوں روپے ایک انتہائی تخلیقی انداز میں بیرون ملک منتقل کئے گئے۔ اس ’چور دروازے‘ کے خالق کا ذہن میں خیال آئے تو نگاہ ’ن‘ لیگ کی طرف اٹھ جاتی ہے۔ اسحاق ڈار کو اس تخلیقی طریقہ کار کا موجد قراردیاجاتا ہے لیکن زرداری صاحب کے بارے میں یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے اس ’طریقہ کار‘ کو جدت خیال کے اعلیٰ ترین درجوں تک پہنچایا اور اسے ادارہ جاتی شکل دی۔ باضابطہ ایک ایسا نظام استوار کیا، ’بی سی سی آئی‘ کے عنوان سے ایک پورا ادارہ بنادیا۔ ’سندھ ماں دھرتی‘ کہنے والوں نے دھرتی کے ’بیٹوں‘ کے نام کو خوب بیچا اور ان کی لاعلمی کا خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ لوگوں بیچاروں کو کیا پتہ تھا کہ وہ اربوں روپے اور کروڑوں روپے کے مالک بن چکے ہیں اور انہیں علم بھی نہیں۔ایک دیہاڑی دار، ریڑھی بان کے اکاونٹ میں کروڑوں آجائیں تو کم ازکم ہارٹ اٹیک تو بنتا ہے؟ پورے نظام کا حرکت قلب بند کرنے والوں نے چالاکی تو بہت کی لیکن آخر کار دھر لئے گئے ہیں۔اس میں گمنام ہیروز کو سلام ہے کہ انہوں نے اس زیرزمین نیٹ ورک کی تفصیل تلاش کی اور انہیں قوم کے سامنے منکشف کرنے میں کامیاب ہوئے۔زرداری صاحب اور ’ادی‘ فریال تالپور سندھ حکومت کے دو اہم ترین کھلاڑی یا فریق تصور ہوتے ہیں۔ ان دونوں کی مرضی کے بغیر سندھ حکومت اور صوبے میں چڑیا پَر تو کیا، درندہ دَر بھی نہیں مار سکتا۔ اس ماحول میں ان کی اسلام آباد میں گرفتاری بھی سیاسی پہلو سے دلچسپ ہے۔ اسلام آباد تکنیکی لحاظ سے پنجاب کا حصہ نہیں بلکہ وفاق کا حصہ ہے۔پی پی پی عملًا اب بھٹو کی جماعت ہے اور نہ ہی بے نظیر بھٹو کی! یہ اصلاًا آصف زرداری کا جتھہ بن چکی ہے۔ آصف زرداری کی عمر کا بڑا حصہ جیل میں گزرا ہے۔ ان کی جیل میں ثابت قدمی پر ہی جناب مجید نظامی جیسے بصیرت افروز نگاہ کے مالک زیرک مدیر نے انہیں ’مرد حْر‘ قرار دے کر دنیا کو حیران کردیا تھا۔ لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ جناب مجید نظامی نے یہ کہا ہے۔ خود پی پی پی والوں کے لئے بھی یہ کوئی کم حیرت کی بات نہیں تھی؟ اس میں کوئی کلام نہیں کہ جناب مجید نظامی کی صداقت اور ساکھ کا یہ کمال تھا اوران کی سچی زبان کی یہ تاثیر تھی کہ ان کے اس ایک لفظ نے جناب زرداری کے بارے میں لوگوں کی رائے بدل کررکھ دی۔ اس جملے نے ایسا رنگ جمایا کہ زرداری صاحب کے لئے پھر ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی۔وقت گزر گیا، زرداری صاحب صدرمملکت بن گئے لیکن ان کے بارے میں اطلاعات اور خبریں نہ بدلیں۔ لاکھوں کی باتیں کروڑوں میں پہنچی تھیں، پھر اربوں اور کھربوں تک پہنچ گئیں۔ قوم کے سرمائے کو شیر مادر سمجھ کر نوش جان بنانے کی کہانیاں اب سینے کی قید سے دل کے اچھل کر آزاد ہونے تک پہنچ گئیں۔ وقت تو بدلا لیکن زرداری صاحب کے بارے میں ایسی اطلاعات کی آمد کا سلسلہ نہ بدلا۔ایک انٹرویو میں وہ بے باکی سے کہتے ہیں کہ بالفرض اگر یہ اکاونٹ میرے ہیں تب بھی میرے خلاف کیس نہیں بنتا۔ جس کا اکاونٹ ہے وہ پکڑا جائے گا؟ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ اس اکاونٹ میں ، میں نے پیسہ رکھوایا تو میری مرضی؟ شریفین کے زمانے میں ان کی یہ کتھا بھی دوبارہ سے پیش پیش ہے کہ ’چئیرمین نیب کی کیا جرات ہے؟ اْس کی کیا مجال ہے؟‘ ، اب وہ آرام دہ جیل میں ہیں جو نیب کی جیل ہے۔نیب قانون کے مطابق نوے روز تک وہ کسی ملزم کو اپنے پاس ’’مہمان‘‘ رکھ سکتے ہیں۔ یہ مہمان نوازی شہباز شریف کی ہوچکی ہے۔ اب مزید کی بھی تیاری ہے۔ اطلاعات ہیں کہ گرفتاریوں کا نیا موسم شروع ہونے والا ہے۔ اب کی بار نیب کا رْخ حکومتی ارکان کی طرف بھی بتایاجارہا ہے۔ حضرت مولانا فضل الرحمن کا نام نامی، اسم گرامی بھی گردش میں ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا میں ایک دلچسپ پوسٹ گردش میں ہے۔ مولانا کی زرداری صاحب سے یاری ہے۔ یار جیل میں ہو اور دوسرا یار باہر۔ یہ دوستی تو نہ ہوئی؟؟ اس قسم کے تبصرے بھی سوشل میڈیا پر جاری ہیں۔ آصف زرداری اس وقت جیل جانے پر آمادہ نہیں تھے۔ کہاجاتا ہے کہ عمر، بیماریوں اور اپنے ’حالات‘ کو دیکھتے ہوئے اب وہ کسی نئے امتحان سے دوچار ہونے کو تیار نہیں۔ مقتدر قوتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی بن جانے اور پی پی پی میں مقتدرہ کے ’’نظریہ اضافت‘‘ پرچارک سمجھے جانے والے زرداری صاحب ’مرتا کیانہ کرتا‘ کی تصویر بنے ہیں۔ پارٹی اجلاسوں میں اب بھی ان کے حوالے سے یہ دعویٰ کیاجاتا ہے کہ کھیل ابھی شروع ہوا ہے۔وہ جان گئے ہیں کہ سیاست وہ تحفظ اور ذریعہ ہے جس سے مالدار بھی ہواجاسکتا ہے اور مال سمیت خود کو کیسے بچانا ہے، اس کا بھی انتظام موجود ہے۔ ان سے پیسے برآمد ہوبھی جائیں تو لوگ کہتے ہیں کہ ان کے دن تو پھر بھی بدلنے والے نہیں، ان کے حصے میں تو پھر بھی مہنگائی نے ہی آنا ہے؟؟ حرف آخر یہ کہ ایک بڑی سیاسی ڈوپلمنٹ دورافتادہ شکرگڑھ سے ملحقہ تحصیل ظفروال میں ہوئی جہاں مریم نواز نے سیاسی طاقت کاششدر کر دینے والامتاثر کن مظاہرہ کیا لیکن ہوا یہ کہ ن لیگ کے سکریٹری جنرل احسن اقبال اور ان کے لواحقین نے اس جلسہ عام کا مکمل بائیکاٹ کیا اور اپنے زیراثر عوام الناس کو شرکت سے بھی روکتے رہے اس جلسے کا انتظام رکن قومی اسمبلی مہناز عزیز کے شوہر برادرم دانیال عزیز چودھری نے کیا تھا جس سے ن لیگ میں اختلافات کی بڑھتی ہو ئی دراڑیں نمایاں ہوتی جارہی ہیں۔