پیرس (ویب ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج فرانس میں نریندر مودی سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر پر باز پرس کریں گے، امریکی حکام کے مطابق صدر ٹرمپ جاننا چاہتے ہیں کہ مودی کے پاس کشیدگی ختم کرنے کے لیے کیا منصوبہ ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسئلہ کشمیر کے حل کےلئے فرانس میں جی سیون اجلاس کی سائیڈ لائن پر آج بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کریں گے۔
امریکی حکام کے مطابق صدر ٹرمپ نریندر مودی سے ملاقات کے دوران ان سے خطے میں جاری کشیدگی کم کرنے اور کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر باز پرس کریں گے۔ امریکی صدر جاننا چاہتے ہیں کہ مودی کے پاس کشیدگی ختم کرنے کے لئے کیا منصوبہ ہے۔امریکی حکام کے مطابق امریکی صدر نریندر مودی پرمسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں گے اور مقبوضہ وادی میں جاری کرفیو کو ہٹانے کا مطالبہ کریں گے۔ دوسری جانب ایک خبر کے مطابق بھارت کی حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے سربراہ راہول گاندھی نے کہا ہے کہ مجھے سرینگرجانے کی اجازت نہ دینا، مطلب حالات نارمل نہیں، مودی سرکار کہتی کشمیر میں حالات نارمل ہیں، حیران ہوں پھر مجھے وہاں جانے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی، جموں کشمیر کے لوگوں کوآزادی اورانسانی حقوق کی 20روز سے پابندیاں عائد ہیں۔ انہوں نے ٹویٹر پر اپنے گزشتہ روزسری نگر کے دورے کی اجازت نہ دینے کے واقعے پر بتایا کہ مجھے حکومت اور حکومتی گورنر نے سری نگر آنے کی دعوت دی، اب جب میں یہاں آیا ہوں تو مجھے کہتے ہیں آپ نہیں جاسکتے،انہوں نے ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں ساری صورتحال بہترین ہے،کنٹرول میں ہے۔ لیکن میں حیران ہوں کہ اگر حالات نارمل ہیں توپھر مجھے کیوں اجازت نہیں دی گئی؟راہول گاندھی نے کہا کہ آپ پرامن علاقو ں میں جہاں جانا چاہو جاسکتے ہو،راہول گاندھی نے کہا کہ اگر وہاں دفعہ 144نافذ ہے تو میں اکیلا جانے کو تیار ہوں،
پھر میں گروپ کے ساتھ بھی نہیں جاؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے جموں کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، میرے ساتھ میڈیا کے لوگ بھی تھے، ان کو مارا پیٹا گیا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ جموں کشمیر میں حالات نارمل نہیں بلکہ کشیدہ ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جموں کشمیر کے لوگوں کوآزادی اورانسانی حقوق کی پابندیوں کا سامنا کرتے 20دن گزر گئے۔اپوزیشن رہنماؤں اور میڈیاکو وہاں جانے کی اجازت نہ دینے سے واضح ہوتا ہے کہ جموں کشمیر میں حالات نارمل نہیں بلکہ کشیدہ ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیرکی صورتحال پرانڈین ایڈمنسٹریشن سروس کے اعلیٰ آفیسر احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 170ختم کرکے مقبوضہ وادی میں طاقت کا استعمال، کشمیریوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں مسلسل جاری ہیں۔ جس پرانڈین ایڈمنسٹریشن سروس صف اول کے کیرالہ سے تعلق رکھنے والے سرکاری افسر کنان گوپی ناتھن احتجاجاً مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ کنان گوپی ناتھن نے اپنے استعفے میں لکھا کہ مقبوضہ کشمیرمیں20 دن سے مسلسل کرفیو نافذ ہے، یہ ریاستی جارحیت ہے۔ لیکن میں سرکاری عہدہ رکھنے کے باعث ان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز بلند اور اپنی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا تھا، اب میں نے استعفا دے دیا ہے۔ اب میں اظہار رائے کیلئے آزاد ہوں۔ کنان گوپی ناتھن نے کہا کہ یہ 70 کی دہائی ہے اور نہ ہی مقبوضہ کشمیر یمن ہے۔ آج کے دور میں کسی علاقے میں ایمرجنسی نافذ کرکے ریاستی طاقت کے ذریعے نہیں چلایا جاسکتا۔ تشدد مسائل کا حل نہیں ہے۔