فیئر ٹرائل کا حق دیا جائے اور جب تک اس درخواست کی سماعت پر فیصلہ نہیں ہوتا اس وقت تک جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی جائے۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے موقف اختیار کیا ہے کہ ججز کی رہائش گاہوں پر اخراجات کی تفصیل سے متعلق درخواست دی لیکن اس درخواست کی سماعت جلد بازی میں مکمل کرلی گئی۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے عدالت عظمیٰ میں دائر درخواست میں کہا ہے کہ 30 جولائی کو میری درخواست خارج کردی گئی۔سپریم کورٹ سے انہوں نے استدعا کی ہے کہ میں نے درخواست گزار کا کرمنل ریکارڈ منگوانے کی بھی استدعا کی تھی۔ انہوں نے اپیل کی ہے کہ میں بھی عام شہری ہوں اس لیے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں۔جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے سپریم کورٹ سے درخواست کی کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات کو کالعدم قرار دیا جائے اورآرٹیکل 10-اے کے تحت شفاف ٹرائل کا حق دیا جائے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ریفرنس میں ان پر الزام تھا کہ انہوں نے سی ڈی اے حکام پر اپنی سرکاری رہائش گاہ کی تزین و آرائش کے لیے دبا ڈالا اورمختص بجٹ سے زائد رقم خرچ کی گئی۔