اس وقت میں امریکی ریاست ورجینیا کے ایک شہر اسپرنگ فیلڈ میں ہوں۔ صبح کے دس بجے ہیں اور ٹی وی پر نائن الیون کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر براہ راست دکھائی جا رہی ہے، اس سے قبل ریاست فلوریڈا میں آنے والے سمندری طوفان اور ٹارنیڈو کی تباہ کاریاں دکھائی جا رہی تھیں جن کا نمایاں ترین پہلو امریکی حکومت کا احساس ذمے داری اور وہ حفاظتی اقدامات تھے جن کی وجہ سے کم سے کم نقصان کے ساتھ اس آسمانی آفت کا مقابلہ کیا گیا۔ یہاں کے دوستوں نے بتایا کہ اس قدر تباہ کن طوفان کے باوجود ایک دو دن کے اندر اندر وہاں زندگی معمول پر آ جائے گی۔ ورجینیا اور واشنگٹن ڈی سی آپس میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی طرح ہیں۔
گزشتہ رات یہاں ہمارے حالیہ دورے کا تیسرا پروگرام تھا جو بہت کامیاب رہا۔ سفیر پاکستان اعزاز احمد چوہدری نے بہت محبت کی، تقریب میں بھی تشریف لائے اور آج دوپہر کو اپنے گھر کھانے پر بھی مدعوکیا ہے۔ وہاں سے نکل کر ہمیں کیلے فورنیا کی فلائٹ پکڑنی ہے‘ جہاں 13ستمبر کو اس سلسلے کا چوتھا چیریٹی مشاعرہ ہو گا جس میں شمولیت کے لیے میں اور انور مسعود ایک بار پھر غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ پاکستان اور ہیلپنگ ہینڈ یو ایس اے کی دعوت پر یہاں آئے ہوئے ہیں۔
یہ دونوں ادارے مل کر پاکستان کے دور دراز دیہاتوں میں ایسے اسکول قائم کرتے ہیں جہاں پسماندہ‘ غریب اور بے سہارا بچوں کو تقریباً مفت تعلیم کی سہولت مہیا کی جاتی ہے یعنی ان عام طور پر دو رکنی مشاعروں کا اصل مقصد ان اسکولوں اور بچوں کے لیے فنڈ ریزنگ ہے اور داد دینی چاہیے بیرون وطن مقیم پاکستانیوں کو کہ وہ ہمیشہ اس طرح کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور بنیادی طور پر یہ انھی کی مدد ہے جس کی وجہ سے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ گزشتہ بیس برسوں میں سات سو سے زیادہ اسکول قائم کر چکا ہے جن میں پڑھنے والے بچوں کی تعداد نوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہے جن میں سے تقریباً نصف یعنی 42ہزار بچوں کو یہ سہولت مفت مہیا کی جاتی ہے جن میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہندو اقلیت کے لیے صوبہ سندھ میں ایسے اسکول بھی قائم کیے گئے ہیں جن کے بیشتر اساتذہ بھی ہندو ہیں اور جہاں بچوں کو ہندی زبان اور ان کے دھرم کی تعلیم بھی فراہم کی جاتی ہے۔ اس بار ہمارے اس اٹھارہ روزہ دورے میں جو شہر شامل ہیں۔
ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے ایلبنی نیوجرسی‘ ورجینیا‘ اورنج کاؤنٹی، کیلے فورنیا‘ شکاگو‘ آرلینڈو‘ فورٹ لاڈر ڈیل‘ سینٹ لوئیس اور نیویارک۔ ریاست فلوریڈا میں آئے ہوئے سمندری طوفان کےباعث ممکن ہے آرلینڈو اور لاڈر ڈیل کی جگہ دو نئے شہروں کو شامل کر لیا جائے۔ سفر حسب سابق بہت طویل اور تھکا دینے والا ہے لیکن اس تصور سے کہ ہماری اس عاجزانہ کوشش سے سیکڑوں بچے تعلیم کی دولت سے فیض یاب ہو سکتے ہیں، دل کو ایسی راحت محسوس ہوتی ہے کہ تکلیف کا احساس تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔
اس سفر کا آغاز 5ستمبر کی صبح لاہور سے پی آئی اے کی پرواز PK721 سے ہوا جو آٹھ گھنٹوں میں انگلینڈ کے شہر مانچسٹر پہنچی جہاں امریکا جانے والے تمام مسافروں کو ایک اضافی تلاشی کے مرحلے سے گزارا جاتا ہے جو سفر کی تکان اور متعلقہ عملے کی ضرورت سے زیادہ چھان بین کی وجہ سے خاصا تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس ’’خصوصی سلوک‘‘ کی وجہ بھی ہمارے ہی کچھ لوگ ہیں جن کے غیرقانونی کاغذات‘ ممنوعہ اشیا کی اسمگلنگ یا کسی متوقع تخریبی کارروائی کا تاوان سب مسافروں کو بھرنا پڑتا ہے۔ پرواز یوں تو بہت ہموار آرام دہ اور بروقت تھی لیکن بزنس کلاس کے بھی نصف سے زیادہ ٹی وی مانیٹر کام نہیں کر رہے تھے‘ غالباً اکانوی کلاس کا حال بھی ایسا ہی ہو گا جو اس اعتبار سے بہت افسوسناک ہے کہ اتنے طویل سفر میں اس بنیادی سہولت کا نہ ہونا کسی عذاب سے کم نہیں۔
نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر ہیلپنگ ہینڈ کے نمایندے مامون عالم موجود تھے، معلوم ہوا کہ ان کا اصل نام سیف اللہ اور تعلق بنگلہ دیش سے ہے، ان کی اردو اور ہماری انگریزی کم و بیش ایک جیسی تھیں سو مل جل کر اچھی گزر گئی۔ ہمارا قیام لانگ آئی لینڈ سے متصل کوئینز کے اس علاقے میں تھا جہاں سے مین ہٹن‘ (جسے اگر نیویارک کا دل کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا) کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ اپنی طرف سے تو منتظمین نے ہمارا فائدہ سوچا تھا مگر ہوا یوں کہ ایک تو ہوٹل نیا ہونے کے باوجود اس کے کمرے بہت چھوٹے تھے اور دوسرے وہاں سے لانگ آئی لینڈ کا ہم سے متعلقہ علاقہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ برادرم ڈاکٹر سعید نقوی کی معرفت 6ستمبر کو گزشتہ سفر میں بننے والے دوست ڈاکٹر مسعود نے اپنے گھر پر کھانے کا اہتمام کیا جب کہ گزشتہ روز سعید نقوی نے شاہین ریستوران میں خود ایک محفل کی میزبانی کی، اس کے علاوہ ہیلپنگ ہینڈکے تعارفی لنچ میں پاکستانی قونصل جنرل راجہ علی اعجاز سے بھی ملاقات رہی۔
ہر تقریب میں کئی پرانے دوستوں سے ملنے کا موقع ملا جن میں حمیرا رحمن ان کے میاں نسیم صاحب مقسط ندیم‘ راجہ اعجاز‘قانع ادا، نصرت اور ان کے میاں انور صاحب‘ واصف حسین واصف‘ احمد مبارک‘ وکیل انصاری‘ رفیع الدین راز‘ فرحت ہمایوں اور ’’سیاست‘‘ حیدر آباد دکن کے نمایندہ عبدالحق صاحب کے نام فوری طور پر ذہن میں آرہے ہیں۔ مامون بھائی کے ایک روز قبل ہی بننے والے کولیگ عزیزی عادل شیخ سے مل کر بہت مزہ آیا کہ اس کی تین نسلیں نیروبی کینیا میں آباد تھیں اور خود وہ 37سال قبل چار برس کی عمر میں امریکا آیا تھا۔ پاکستان میں اس کا تعلق جہلم سے تھا اور شادی گوجرانوالہ میں ہوئی تھی، اس کی پنجابی زبان اور لہجہ دونوں بہت دلچسپ تھے اس کے ساتھ ایلبنی اور نیوجرسی کا سفر بہت مزے کا رہا۔