لاہور ؛ایک وقت تھا، جب پاکستان میں لوگ الیکٹرانک میڈیا کے نام پر صرف پی ٹی وی ہی سے واقف تھے اور مُلکی و غیر مُلکی، ہر چھوٹی، بڑی خبر سے آگہی کا بڑا ذریعہ اسی پی ٹی وی کا ’’خبرنامہ‘‘ تھا۔مگر آج بڑی سے بڑی خبر سے لے کر عام،
معمولی خبروں تک رسائی کے بے شمار ذرائع (چینلز) موجود ہیں۔ اور یہ اپنے ناظرین کو لمحہ بہ لمحہ خبروں سے آگاہ رکھنے کا فریضہ بخوبی انجام بھی دے رہے ہیں۔ ایک عام تاثر ہے کہ کسی نیوز اینکرز کا کام صرف خبریں پڑھ دینا ہوتا ہے،مگر ایسا نہیں ہے۔ آج ایک نیوز اینکر، صرف نیوز کاسٹر نہیں، بلکہ خبروں سے وابستہ اِک اِک شعبے سے مکمل واقفیت رکھنے والاایک مکمل نیوز اینکر ہے اور ایسی ہی ایک ہونہار، باصلاحیت، خُوب رُو، خوش ادا اور بے حد خوش مزاج سی نیوز اینکر آمنہ شاہ، آج جنگ، سنڈے میگزین کے مقبولِ عام صفحے ’’کہی اَن کہی‘‘ کی مہمان ہیں۔س:خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟ج:میرا تعلق سرائیکی پٹّی سے ہے۔ والد ارشاد احمد عارف، جو روزنامہ جنگ سے طویل عرصے تک وابستہ رہے، راجن پور میں پلے بڑھے اور والدہ شبانہ ادیب سیال کوٹ میں۔ شادی کے بعد والد روزگار کے سلسلے میں لاہور آگئے اور یہی’’زندہ دِلوں کا شہر‘‘ میری جائے پیدایش ہے۔ مجھے بچپن میں پڑھنے کا قطعی شوق نہیں تھا۔ دوسری کلاس میں تھی تو یہ کہہ کر مزید پڑھنے سے انکار کردیا کہ مجھے گھر میں رہنا اچھا لگتا ہے۔ خیر، ایک سال کے وقفے کے بعد دوبارہ تعلیمی سلسلے کا آغاز ہوا۔ اور پھر اسکول سے لے کر یونی ورسٹی تک کے تمام تعلیمی مدارج لاہور ہی میں طے کیے۔
مَیں نے جرنلزم میں بی ایس آنرز کیا ہے، لیکن اس سے قبل فائن آرٹس میں داخلہ لیا۔ انگلش لٹریچر، پولیٹیکل سائنس اور اکنامکس کے مضامین منتخب کیے، بعدازاں لاء کا سوچا، داخلہ بھی لے لیا، مگر پھر جرنلزم میں بی ایس آنرز کرلیا۔ رہی بات تربیت کی، تو والدین نے بچپن ہی میں اچھے، بُرے کا فرق اچھی طرح سے سمجھا دیا تھا اور آج تک وہی حافظے میں محفوظ ہے۔س:باربار مضامین تبدیل کرنے پر والد برہم نہیں ہوئے؟ج:بالکل نہیں۔ میرے والد اس معاملے میں خاصے براڈ مائنڈڈ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ تعلیم وہی اچھی ہوتی ہے، جو شوق اور لگن سے حاصل کی جائے۔س:کتنے بہن، بھائی ہیں، آپ کا نمبر کون سا ہے، آپس میں کیسی دوستی ہے؟ج:ہم تین بہن، بھائی ہیں۔ مَیں سب سے چھوٹی اور گھر بَھر کی لاڈلی ہوں۔ بڑی بہن مریم شاہ بطور پروڈیوسر کام کررہی ہیں، جب کہ بھائی شاہ حسن انجنیئرہے۔ ہم تینوں جب ایک ساتھ ہوتے ہیں، تو خُوب انجوائے کرتے ہیں۔ بچپن میں اکثر ہم ایک دوسرے کی شکایات لگانے کے لیے پاپا کے آفس فون کرتے تھے کہ بہن ریموٹ نہیں دے رہی، یا بھائی مستقل کمپیوٹر استعمال کررہا ہے۔ ہمیں اس طرح ایک دوسرے کو ڈانٹ پڑوا کر بڑا مزا آتا تھا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔س:فرماں بردار بیٹی ہیں یا خودسَر، اور والدین میں سے کس کی زیادہ لاڈلی ہیں؟
ج:بہت ہی زیادہ فرماں بردار بیٹی ہوں اور ماما کی زیادہ لاڈلی ہوں۔س:اگر اپنا نام خود رکھ سکتیں، تو کیا رکھتیں؟ج:بہت مختلف سا نام رکھتی، جیسے میر زاد۔س:آپ کے والد ارشاد احمد عارف، نانا عبداللہ ادیب روزنامہ جنگ سے وابستہ رہے، بہن مریم شاہ بھی بطور پروڈیوسر کام کررہی ہیں، خالو بھی اسی فیلڈ میں ہیں، جب کہ خالہ بھی لکھ رہی ہیں، تو بڑوں کی دیکھا دیکھی میڈیا سے منسلک ہوئیں یا پھر اپنا شوق یہاں لے آیا؟ج:نہ شوق تھا، نہ ہی بڑوں کی دیکھا دیکھی آئی۔ بس حالات اس طرف لے آئے۔ اصل میں، مَیں خود کو “Destiny’s Child” سمجھتی ہوں، کیوں کہ اللہ نے میرے لیے جو فیصلہ کیا، وہ ہمیشہ مجھے کام یابی کی جانب ہی لے کر گیا۔ جیسے جیو نیوز جوائن کیا اور بس، قسمت مہربان ہوتی چلی گئی۔س:پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا، تو کیا احساسات تھے؟ج:بے حد نروس تھی، مگر پھر وقت کے ساتھ خاص طور پر جیو نیوز جوائن کرنے کے بعد اعتماد بڑھتا چلا گیا۔س: 2015ءمیں ایک نجی چینل سے کیرئیر کا آغاز کیا اور 2017ء میں جیو نیوز سے وابستہ ہوگئیں، تو آج تک کے سفر کے متعلق مختصراً کچھ بتائیں؟ج:اس مختصر سے سفر میں بس اس بات پر فخر رہا کہ پاپا کا نام کیش کروانے کی بجائے، اُن کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے کہیں زیادہ ذمّے داری سے کام کیا۔
اینٹرن شپ کے دوران اور ایک نجی چینل سے وابستہ ہونے کے بعد بھی مجھے نیوز اینکر بننے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔ بس، ایک ایگزیکٹیو پروڈیوسر کی ضد میں نیوز اینکر بننے کا فیصلہ کرلیا۔ جیو نیوز سے آڈیشن کی کال آئی، تو اسکائپ پر انٹرویو ہوا اور 27فروری کو عین میری سالگرہ کے دِن اس سے وابستگی کا پروانہ ملا جب کہ مَیں نے 8مارچ، خواتین کے عالمی دِن کے موقعے پر جیو نیوز باقاعدہ جوائن کیا اور یہ تاریخ، میری بہن مریم کی سال گرہ کی ہے۔س:زندگی کی پہلی کمائی ہاتھ آئی، تو کیا کیا؟ج:چوں کہ مجھے پہلے بھی خاصی ہینڈسم پاکٹ منی ملتی تھی، تو وہ رقم بھی عام انداز ہی سے خرچ کردی، لیکن اپنی محنت کی کمائی کی خوشی الگ ہی ہوتی ہے۔س:آن ائیر کوئی ایسی غلطی، جس پر خاصی سبکی ہوئی ہو؟ج:یہ کیرئیر کے ابتدا کی بات ہے، جب نائٹ شفٹ میں ڈیوٹی ہوتی تھی۔ ایک خبر تھی کہ ’’تھانہ ریس کورس پارک، لاہور سے 13افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔‘‘ مجھے قطعی علم نہیں تھا کہ کوئی پورا علاقہ کسی تھانے کی حدود ہوتا ہے، تو مَیں نے اپنی کم علمی کے سبب، رپورٹر سے سوال کردیا کہ ’’رات گئے یہ 13افراد پارک میں کیا کررہے تھے؟‘‘بعد میں اس سوال پر شرمندگی ہوئی۔
س:خود کو پانچ سال بعد کہاں دیکھ رہی ہیں؟ج:مَیں تو پانچ ماہ بعد کا بھی کچھ نہیں کہہ سکتی، پانچ سال کا کیا بتاؤں؟س:عمومی طور پر لوگوں کو ایک نیوز اینکر کی زندگی بڑی پُرکشش معلوم ہوتی ہے، کیا حقیقتاً بھی ایسا ہی ہے؟ج:ہرگز نہیں۔ ایک اچھا اینکر تو گویا 24گھنٹے ڈیوٹی پر ہوتا ہے۔ ہماری زندگی میں تو سکون، اطمینان نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔س:آپ نے کئی معروف شخصیات کے انٹرویوز کیے، کس کا انٹرویو کرنا اچھا لگا؟ج:علّامہ طاہر القادری کا انٹرویو کرنا اچھا لگا تھا۔س:آپ نے اپنے والد کا بھی انٹرویو کیا، وہ تجربہ کیسا رہا؟ج:وہ انٹرویو مَیں نے بیٹی بن کر نہیں، بلکہ ایک اینکر بن کر کیا تھا۔س:والد صاحب سے کس حد تک رہنمائی لیتی ہیں؟ج:اکثر و بیش تر کہ پاپا تو معلومات کا خزانہ ہیں، جس بھی موضوع پر بات کروں، وہ بہت مفصّل انداز سے اُس کا پس منظر تک بتا دیتے ہیں۔س:کسی ساتھی اینکر سے پیشہ ورانہ حسد تو محسوس نہیں ہوتا؟ج:میری فطرت ہی میں حسد، جلن، مقابلہ بازی جیسی بدعات شامل نہیں۔ مَیں بہت قناعت پسند ہوں۔س:آپ کے خیال میں ایک نیوز اینکر میں کیا خُوبیاں ہونی چاہئیں؟ج:اعتماد، چُستی کے ساتھ اپ ٹو ڈیٹ اور پریزنٹ ایبل ہونا چاہیے۔س:دفتری ذمّے داریاں ادا کرکے جب گھر جاتی ہیں، تو پہلا کام کیا کرتی ہیں؟
ج:بہت آرام پسند ہوں، اس لیے سب سے پہلے آرام، پھر تازہ دَم ہوکر کھانا کھاتی ہوں۔س:اگر آپ کو مارننگ شو کی میزبانی کا کہا جائے…؟ج:مَیں مارننگ شوز نہیں دیکھتی۔ اگر چینلز بدلتے ہوئے کوئی مارننگ شو سامنے آبھی جائے، تو فوراً چینل بدل دیتی ہوں۔ حالاں کہ مجھے مارننگ شو کی میزبانی کی آفر ہوئی ہے، لیکن میرا مزاج اس سے میل نہیں کھاتا ۔س:آپ لاہور سے کراچی منتقل ہوئیں، تو کیا یہاں کی زندگی بہت فاسٹ یا مشینی تو نہیں لگی؟ج:لاہور کی نسبت یہاں کی زندگی بہت فاسٹ ہے اور اس مشینی زندگی میں گھر بہت یاد آتا ہے۔س:کھانا پکانے، سینے پرونے کا شوق ہے؟ج:بس ایک آدھ ڈش بنا لیتی ہوں۔ گھر کا کام کاج نہیں کرتی، البتہ بچپن میں گڑیا کے کپڑے سیتی تھی، مگر اب سینے پرونے کا بھی کوئی خاص شوق نہیں رہا۔س:آپ خاصی خوش شکل ہیں۔ کیا کبھی ڈراموں، فلموں میں کام کی آفر ہوئی اور اگر ہوئی تو کیا قبول کرلیں گی؟ج:کالج میں، مَیں نے ماڈلنگ کی ہے۔ اس کے بعد کئی معروف اداروں نے بھی آفرز دیں۔ جیو میں آنے کے بعد تو ماڈلنگ، ڈراموں کی باربار آفرز ہوئیں، مگر میرا اس طرف کوئی رجحان نہیں ہے۔س:شادی کے کیا ارادے ہیں؟ج:شادی والدین کی مرضی سے کرنی ہے۔ جب ماما، پاپا کہیں گے، کرلوں گی۔
س:اگر شادی کے بعد سُسرال والے یہ شوق جاری نہ رکھنے دیں، تو کیا کریں گی؟ج:مَیں وقت سے پہلے کچھ نہیں کہہ سکتی کہ سُسرال کا انتخاب والدین ہی نے کرنا ہے۔ اب دیکھیں، میرا مقدر کس کے ساتھ بندھا ہے۔س:شاپنگ یا پھر کسی کام کے لیے گھر سے نکلتی ہیں، تو کیا لوگ پہچان لیتے ہیں اور پھر عموماً ان کے ریمارکس کیا ہوتے ہیں؟ج:جی بالکل پہچان لیتے ہیں۔ اور عموماً اس طرح کے ریمارکس ہوتے ہیں، ’’ارے آپ تو چھوٹی سی ہیں، اسکرین پر بڑی نظر آتی ہیں۔‘‘، ’’میک اپ کے بغیر آپ زیادہ اچھی لگتی ہیں۔‘‘ یا یہ کہ ’’آپ تو مادھوری سے ملتی ہیں۔‘‘س:کبھی کسی بات پر غصّہ آجائے تو ردِّعمل کیا ہوتا ہے؟ج:خاموش ہوجاتی ہوں اور اگر شدّت زیادہ بڑھ جائے، تو آنسو نکل آتے ہیں۔س:گھر والوں کو آپ کی کون سی عادات پسند، کون سی ناپسند ہیں؟ج:میری ہمّت و حوصلہ اور صبر پسند ہے، جب کہ فون پر رابطہ رکھنے میں کچھ تساہل پسند ہوں، تو یہ عادت اچھی نہیں لگتی۔س:موسم اور رنگ کون سا بھاتا ہے؟ج:سردی اور برسات کا موسم پسند ہے۔ رنگوں میں نیلا رنگ اچھا لگتا ہے۔س:میک اپ اور جیولری میں کیا پسند ہے؟ج:مسکارا اور ڈائمنڈ رِنگ۔س:اس فیلڈ سے وابستہ نہ ہوتیں تو…؟ج:یقیناً مصوّرہ ہوتی۔س:اگر فیس بُک بند کردی جائے
اور موبائل فون بھی زندگی سے نکال دیا جائے تو…؟ج:موبائل فون آن رکھنا تو گھر اور دفتر کے لیے ضروری ہے، جب کہ فیس بُک زیادہ استعمال نہیں کرتی، اس لیے اگر بند بھی کردی جائے، تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔س:آپ کے بیگ کی تلاشی لی جائے تو…؟ج:میری سہیلیاں کہتی ہیں کہ تمہارا بیگ تو ’’جہاز‘‘ ہے۔ ویسے اس میں زیادہ کھانے پینے کی چیزیں جیسے بسکٹس، پانی کی بوتل، دہی کا پیکٹ، چاکلیٹس ہی ہوتی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ میک اپ کے سامان کے علاوہ سب کچھ ہوتا ہے۔س:سیاست دانوں میں کون پسند ہیں؟ج:عمران خان۔س:شاعری اور موسیقی سے کس حد تک دِل چسپی ہے؟ج:شاعری اور موسیقی دونوں ہی پسند ہیں۔ شعراء میں فیض، فراز، ناصر کاظمی اور ساحر لدھیانوی کو پڑھا ہے۔ رہی بات موسیقی کی، تو موڈ پر منحصر ہے۔ ویسے مجھے بہت پُرانے زمانے کے گانے سُننا اچھا لگتا ہے۔س:آپ کی انفرادیت؟ج:عزیزواقارب کا کہنا ہے کہ میری آنکھیں اور مُسکراہٹ مجھے باقیوں سے منفرد کرتے ہیں۔س:ایک دُعا جو ہمیشہ لبوں پر رہتی ہے؟ج:مَیں اپنے اہلِ خانہ کے لیے ہر پَل دُعا گو رہتی ہوں۔