تحریر : ایم سرور صدیقی
اس کا پورا جسم پسینے میں شرابور، داڑھی آنسوئوں سے تر تھی وہ آتے جاتے لوگوں کے سامنے ہاتھ جوڑ رہا تھا ہونٹوں پر کبھی دعا کبھی التجا مچل رہی تھی درجنوں افراد اس کی بات سنی ان سنی کرتے جارہے تھے اس کے قدموںمیں ایک نوجوان اپنے ہی خون میں ڈوبا سڑک پر پڑا تڑپ رہا تھا ۔۔۔یہ نوجوان اس کا ہونہار بیٹا تھا جو اپنے والد کے ساتھ دورکے ایک گائوں سے شہرمیں کسی کام کیلئے آئے ہوئے تھے وہ بس کے انتظارمیں کھڑے تھے کہ کوئی موٹر سائیکل سوار اندھا دھند اس سے ٹکرایا نوجوان اپنی جگہ سے اچھل کر فٹ پاتھ سے ٹکرایا اور خاک و خون میں لوٹ پوٹ ہونے لگا وہ بوڑھا اپنے بیٹے کو طبی امداد کیلئے ہسپتال لے جانے کیلئے لوگوں کی منتیں کرتا،
مضطرب ہوکر کبھی ادھر کبھی ادھر جاتا ،کبھی ڈبڈباتی آنکھوں سے بیٹے کی طرف دیکھتاچند افراد جائے حادثہ پر بھی موجود تھے شایدہم میں سے بیشتر لوگ” تماشا” دیکھنے کے عادی ہیں دردِ دل رکھنے والے کچھ معاونت بھی کرنا چاہتے تھے لیکن قانونی موشگافیوں، پولیس کے تیزو تند سوالات ،وقت کی کمی یا لاپرواہی ،دوسروںمیں عدم دلچسپی کے باعث مدد کیلئے کوئی آگے نہیں بڑھا۔۔ہرشخص اپنے حال میں مست تھا آخر ایک کار والے کو ترس آہی گیا جب اس نے زخمی کو ہسپتال لے جانے کیلئے اٹھانا چاہا تو معلوم ہوا زیادہ خون بہہ جانے کے باعث نوجوان ہر قسم کی طبی امداد سے بے نیاز ہو چکاہے۔باریش دھاڑیں مار مار کررونے لگا اس کے ارد گرد ہجوم اکھٹا ہونے لگا۔
با پ بیٹا اپنے کسی ر شتہ دار سے ملنے کوئی دس سال کے بعد شہر آئے تھے علاقہ کی ترقی دیکھ کر ان کی حیرت گم ہوگئی کہاں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ،کچے پکے مکان،آم،جامن لیموں فالسے کے درخت اور اب کہاں یہ پوش آبادی، چمچاتی کاریں،قد آور پلازے ، رنگ برنگی ایک سے بڑھ کر ایک کوٹھی،سڑکوںکا جال اور کاروباری مراکز۔ ر شتہ دار کو ملنے کی خواہش میں وہ صبح سویرے ہی یہاں پہنچ گئے تھے دور دور تک بندہ نہ بندے کی ذات ۔لگتا تھا جیسے یہاں دن ہی نہ نکلا ہو گھنٹوں گذرنے کے باوجود کوئی سر گرمی دیکھنے میں نہیں آئی،دفاتر اور کاروباری مراکز اب تک بند تھے۔ تپتی دھوپ میں دونوں حیران پریشان تھے کہ اب جائیں تو کدھرجائیں؟ یہاں تو دنیاہی بدل گئی تھی کسی کو تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیرمیں سوئی ڈھونڈنے کے مترادف تھا پھر بھی اس نے ہمت کرکے ایک نو جوان کو پتہ پو چھنے کیلئے روکا وہ اس کی بات سنی ان سنی کرتے یہ جا وہ جا۔
ایک خاتون سے بات کرنے کی کوشش کی اس نے کانوںمیں موبائل کی ہینڈفری ٹھونسی ہوئی تھی بیشتران کو اس اندازسے دیکھتے گذر جاتے جیسے وہ بھکاری ہوں کوئی بات کرنے یا سننے کو تیارہی نہ تھاوہ بڑبڑایاخدایا میں کہاں آگیا ہوں وہ سوچنے لگاکیا یہ علاقہ بھی پاکستان میں ہے یا پھر غلطی سے کسی اور دیس آگیاہوں۔وہ انہی سوچوںمیں غلطان تھا اسے دور ایک دکان نظر آئی تھکے جسم،گرد آلود چہرے، ماتھے سے بہتاپسینہ،پیاس کی شدت کے ساتھ ڈگمگاتے قدموں سے جب وہ مطلوبہ جگہ پہنچے تودکاندار چوہدری اللہ وسایا بارے دریافت کیا۔
کوئی اتہ پتہ۔ دکاندار نے استفسار کیا۔ کوئی ایڈریس؟۔ بوڑھے نے نفی میں سرہلایا تودکاندار بولا بابا جی تم ساری زندگی بھی ایسے کسی چوہدری اللہ وسائے کو ڈھونڈتے رہو وہ نہیں ملنے والا۔۔۔پھراس نے کہا ہاں میں نے ایک کوٹھی پر چوہدری اللہ وسایا لکھا دیکھا تھا وہ تو یہاںسے کافی دور ہے ۔۔۔تم بتائو تو سہی بوڑھے نے امیدکی ایک کرن جانتے ہوئے مضطرب ہوکر پو چھا۔۔۔یہ ایک چوک چھوڑ کر ۔۔۔دکاندار نے دور اشارہ کرتے ہوئے کہا دوسرے چوک سے دائیں مڑجانا وہیں کہیں چوہدری اللہ وسائے کی بڑ ی سی کوٹھی ہے۔۔۔تھوڑا سا پانی ہی پلا دو ۔بوڑھے نے لجاحت سے کہا ۔۔۔بابیو! یہاں پانی نہیں لوگ منرل واٹرپیتے ہیں۔۔۔وہ سوچتے سوچتے جارہے تھے مطلوبہ جگہ پہنچنے سے پہلے ہی بوڑھا چکرا کر گرگیا دور دور تک کوئی بندہ نہ بشر۔۔۔لڑکے نے کئی کوٹھیوں کے گیٹ پر دستک دی کئی لوگوںسے مدد مانگی کسی نے ایک نہ سنی۔۔۔یہ دو واقعات ۔۔ محض۔واقعات ہی نہیں ہمارے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں یہ کہانیاں موجود ہ حالات کے عکاس ہیں ایک دوسرے سے لاتعلقی،بے حسی ،بے مروتی اس قدر غالب آگئی ہے کہ اب تو مطلب کے بغیر کوئی ہاتھ ملانا بھی پسندنہیں کرتا غریب رشتہ دارکی طرف دیکھنا بھی معیوب بن گیاہے شاید الفاظ کے معنی الٹ ہوگئے ہیں یا لوگوںکی کھوپڑیاں۔ا
س بے حسی ،انسان کی ناقدری اور روپے پیسے سے اتنی محبت کہ ماتم کرنے کو جی کرتاہے اسلام نے دولت سے محبت کو فتنہ قرار دیاہے جبکہ صرف اپنی ذات کے متعلق سوچنا رہبانیت ہے ۔آج کوٹھی،کار،کاروبار اور ہر طرح کی آسائشیںہماری دسترس میں ہیں جن کے پاس وسائل ہیں دولت ان پر عاشق ہے ،کھانے کو ہزار نعمتیں ،پہننے کیلئے قیمتی ملبوسات کی وسیع رینج ،۔۔۔ نزاکت ،شہرت اوردنیا جہاںکی مہنگی سے مہنگی چیزیں گھرکی لونڈی۔۔۔لیکن ستم بالائے ستم یہ کہ دل محبت سے خالی ہو گئے ہیں مسلمان ہونے کے باوجودہم مروت، احساس ،اخوت،بھائی چارہ اور ایک دوسرے س کی چاہت سے عاری ہوتے جارہے ہیں اوردل ہیں کہ خواہشات کے قبرستان بن گئے قبرستان بھی ایسا کہ ٹوٹی پھوٹی قبریں جن پر کوئی دیا ٹمٹماتاہے نہ کوئی فاتحہ پڑھنے کیلئے آتاہو حیف صد حیف پھر بھی ہم سمجھتے ہیں زندہ ہیں۔ لیکن سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے کیا یہ سب کچھ زندگی کی علامت ہے؟۔۔ کیا ہم اپنے لاشے کندھوںپر اٹھائے نہیں پھرتے ۔۔۔ہمارا رویہ ۔۔ شخصیت کا تضاد ، بناوٹ ،جھوٹی نمائش اور خلق ِ خدا سے سلوک سب کا سب ہماری مذہبی تعلیمات کے منافی ہے۔اللہ اور اللہ کے رسولۖ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔۔۔ہم نے یہ بھی کبھی غورنہیں کیا کہ بڑے بڑے گھروںمیں رہنے سے انسان بڑا نہیں ہوتا چھوٹے گھروںمیںبھی بڑے لوگ رہتے ہیں ہمارے لئے یہ جاننا کافی نہیں کہ صرف اپنے متعلق سو چنا رہبانیت ہے اور راہب کا دل ویران ہوتاہے۔ایک بہترین معاشرے کی تشکیل، لوگوںکے دکھ سکھ میں شرکت،صلہ رحمی، مخلوق ِ خدا سے محبت اوراخوت ہی تو اسلام کی اصل روح ہے اس پر عمل کئے بغیر ہماری روح بے چین رہے گی حقیقی سکون نہیں مل سکتا
ملوہر ایک سے اخلاص کے ساتھ
جانے کس روپ میں خدا مل جائے
تحریر : ایم سرور صدیقی