لاہور: انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سرکاری وکیل کی بے جا مداخلت پر فاضل جج برہم ہوگئے۔
لاہور میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں سانحہ ماڈل ٹاؤن سے متعلق پولیس کے مقدمے کی سماعت ہوئی، دوران سماعت عوامی تحریک کے وکلاء نے استغاثہ کے گواہ کانسٹیبل سائیں اور سب انسپکٹر ثناء اللہ سے جرح کی۔
عدالتی کارروائی کے دوران پولیس ملزمان کے وکلاء کی مداخلت اور کارروائی میں خلل ڈالنے پر اے ٹی سی جج نے عدالتی آداب کا خیال رکھنے کی بار بار تنبیہ کی اور ان وکلاء کو روسٹرم سے ہٹ جانے کا حکم دیا جو ملزمان کے وکلاء نہیں تھے، اے ٹی سی جج کے بار بار حکم کے باوجود ملزم پارٹی نے شوروغل جاری رکھا جس پر جج نے سختی سے کہا کہ اس شور کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا،عدالتی عمل ہر صورت قانون کے مطابق آگے بڑھے گا۔
کمرہ عدالت میں عوامی تحریک کے وکیل مستغیث جواد حامد نے پراسیکیوٹر وقار بھٹی کی بے جا مداخلت پر احتجاج کیا اور کہا کہ سرکاری وکیل شاہ سے زیادہ شاہ کاوفادار بننے کی کوشش کر رہا ہے۔ جج کے بار بار منع کرنے پر بھی وقار بھٹی نے مداخلت بند نہ کی۔
پولیس کانسٹیبل سائیں کے بیان پر اس وقت صورتحال دلچسپ ہو گئی جب اس نے کہا کہ وہ اینٹ لگنے سے وہ بے ہوش ہو گئے اور عالم بے ہوشی میں وقوعہ بھی دیکھتے رہا، کانسٹیبل کو شرمندگی سے بچانے کے لئے پراسیکیوشن اور پولیس وکلاء جرح کے عمل میں خلل ڈالتے رہے۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عوامی تحریک کے وکلاء نے کہا کہ پولیس ملزمان کا رویہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کیس کی کارروائی کو روکنا اور کیس کو تاخیر کا نشانہ بنانا ہے، ملزمان کو علم ہو گیا ہے کہ کیس اسی رفتار سے چلتا رہا اور شہادتیں ہو گئیں تو سزائیں یقینی ہیں۔