تحریر : پروفیسر حافظ محمد سعید
بات زیادہ پرانی نہیں اسی سال7جون کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا اس دوران انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں ہونے والے ایک پروگرام میںبھی شرکت کی ۔یہ پرو گرا م پاکستان کو توڑنے اوربنگلہ دیش بنانے میں بھارتی کردار کے اعتراف وخدمات کے حوالے سے تھا۔اس موقع پر مودی نے جو گفتگوکی اس کا ایک ایک لفظ پاکستان دشمنی میں ڈوبا ہوا ہے۔مودی کا کہنا تھا”بنگلہ دیش کی آزادی میں بھارتی فوجیوں کا خون بھی شامل ہے،ہمارے لوگوںنے بھی بنگلہ دیشیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر جدوجہد کی،ہم مکتی باہنی کے ساتھ مل کے لڑے۔ہمارے فوجیوں کے علاوہ عام ہندئوو ں کا بھی بنگلہ دیش بنانے(پاکستا ن توڑنے ) میں حصہ ہے ۔بنگلہ دیش بنانے (پاکستان توڑنے کی تحریک)میں نے بھی بطور رضاکار حصہ لیا۔مودی نے پاکستان توڑنے کی پرانی یادوںاور باتوں کو دھر اتے ہوئے بتایا ”واجپائی نے اس کارنامے (پاکستان توڑنے) پراندرا گاندھی کو درگا ہ میئتا کا خطاب دیا تھا۔پاکستان توڑنے کا اعتراف اگرچہ اندرا گاندھی نے بھی کیا لیکن مودی پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے ایک دوسرے ملک کی سرزمین پر کھڑے ہو کربیحثیت وزیراعظم پور ی ڈھٹائی کے ساتھ میڈیا کے سامنے دشمنی کا اظہار واقرار کیااور پاکستان توڑنے کا اعتراف کیا ہے۔
مودی کے اعتراف جرم میں اگرچہ کو ئی نئی چیز نہیںالبتہ ایک بات ہمارے سمجھنے کی ہے کہ 67سال کا عرصہ گزرنے اورپاکستان کو دولخت کرنے کے باوجود بھی بھارتی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی پاکستان دشمنی ۔۔۔۔۔۔زندہ ہے۔۔۔۔۔اور جوان ہے۔1947ء کے موقع پر ہندئووں نے مسلمانوں کا بدترین قتل عام کیا پھر ہمارا ایک بازو ہم سے جدا کردیا جبکہ ہمارے نادان سیا ستدانوں اور حکمرانوں کی حالت یہ ہے کہ بچ جانے والے ایک ہی بازو کے ساتھ بھارت کے ساتھ بغل گیر ہونے اور دوستی کے رشتے استوار کرنے کے لئے بے تاب و بے قرار ہیں اور بھول گئے ہیںکہ بھارت نے ہماراایک بازو ہی نہیں توڑا بلکہ ہماری شہ رگ(مقبوضہ جموں کشمیر)کو بھی دبوچ رکھا ہے۔ بات یہ ہے کہجو قوم تاریخ سے سبق حاصل نہ کرے اور اپنے ماضی کو یاد نہ رکھے … وہ باربار ماضی کی غلطیوں کا اعادہ کرتی ہے۔ ماہرین عمرانیات قوموں کے ماضی کو ان کی یادداشت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیںجو قوم اپنا ماضی بھول جائے وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھتی ہے۔ پھر ایسی قوم پر ایک وقت آتا ہے جب وہ خود قصئہ ماضی بن جاتی ہے۔ اس لئے ماضی کو بہرصورت یاد رکھنا چاہئے۔ ماضی کا نہ بھولنے والا ایک سبق سانحہ مشرقی پاکستان ہے۔
پاکستان کے دولخت ہونے کا باعث بننے والے مسائل پیچیدہ ہرگز نہ تھے۔ تاہم سب سے اہم مسئلہ جس سے پہلوتہی کی گئی ……اور جو حقیقتاً مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سبب بنا وہ اسلام اور اللہ کے قرآن سے انحراف تھا۔ بات بہت سیدھی سی تھی کہ ہندوستان بہت وسیع و عریض خطہ تھا جس میں مسلمان دور دور تک بکھرے پڑے تھے۔وہ انتشار و اختلاف کا شکار تھے۔ راجکماری سے کراچی تک بکھرے مسلمانوں کو اگر کسی چیز نے ایک لڑی میں پرو دیا تو وہ … اسلام تھا۔ ۔ آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات کا تعین کرنے والے دونوں خطوں میں زبان، صوبائی خودمختاری اور زمینی و جغرافیائی جیسے مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب دونوں خطوں کے عوام نے مل کر وطن کے حصول کی مشترکہ جدوجہد کی تو کیا اس وقت یہ مسائل موجود نہ تھے……؟ سب کچھ ایسے ہی تھا۔ یہ مسائل اس وقت بھی تھے۔ زمینی خلیج اور زبان کی تفریق اس وقت بھی تھی
لیکن اسلام کے رشتے کی وجہ سے ایک ہزار میل دور بیٹھے دونوں خطوں کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات ایک تھے اور ان کے دل بھی ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ بنگالی مسلمانوں کی اسلام کے ساتھ محبت شک وشبہ سے بالاتر تھی۔ انگریز کے انخلا اور وطن کی آزادی کے لیے ان کی قربانیاں تاریخ ساز تھیں۔ جماعت مجاہدین سے وابستہ بنگال و بہار کے مسلمان ایک سو سال تک انگریز کے خلاف برسرپیکار رہے، قیدوبند کی صعوبتوں سختیوں کو سنتِ یوسفی سمجھتے رہے، پھانسی کے پھندوں کو جنت کی معراج جانتے رہے، آہنی زنجیر و سلاسل کو لباسِ زینت سمجھ کرپہنتے رہے اور جب قیام پاکستان کی تحریک چلی تو اسے سید احمد اور شاہ اسماعیل شہیدین کی برپا کردہ مقدس جہادی تحریک کا ماحاصل سمجھ کر کامیاب کرنے کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بنگال و بہار سے تعلق رکھنے والے جماعت مجاہدین سے وابستہ جانبازوں اور سرفروشوں کا مشرقی بنگال کو مشرقی پاکستان بنانے میں اہم کردار تھا۔ لہذا جب پاکستان بن گیا تو ضرورت اس امر کی تھی کہ اس کے قیام کے مقاصد کو بروئے کار لایا جاتا۔
لاالہ الااللہ کو محض نعرے کی بجائے اقتدار کے محلات، عدلیہ کے ایوانوں، عوام کی زندگیوں، ہر محکمے اور ہر شعبے میں عملاً نافذ کیا جاتا۔ سچی بات ہے کہ اگر پاکستان کا مقدر اسلام سے وابستہ کر دیا جاتا تو دونوں خطوں میں زبان ولسان کے مسائل پیدا ہوتے نہ صوبائی خودمختاری و احساس محرومی کا عفریت جنم لیتا اور نہ بھارت کی سازشیں پروان چڑھتیں وکامیاب ہوتیں۔ جب اسلام سے روگردانی اور بے وفائی کی گئی تو چھوٹے چھوٹے مسائل پہاڑ بن گئے ، نفرتوں، عداوتوں، مخالفتوں اور دشمنیوں کے بیج پھوٹنے لگے، بھارت کی بوئی ہوئی نفرت، لسانیت اور صوبائیت کی فصل پک کر تیار ہو گئی تو پھر دہشت گردی، تخریب کاری اور بغاوت کو منظم کرنے کیلئے بنگلہ دیش کی نام نہاد عبوری اور جلاوطن حکومت کا ہیڈکوارٹر کلکتہ کے علاقے 58بالی گنج میں بنایا گیا۔ 3دسمبر کو جب اندرا گاندھی نے اپنی فوج کو مشرقی پاکستان پر علی الاعلان حملہ کرنے کا حکم دیا تو اس وقت وہ کلکتہ میں تھیں حملہ آور بھارتی فوج کی تعداد پانچ لاکھ تھی۔ پاک فوج سے بھاگے ہوئے بنگالی جوان، افسر اور مکتی باہنی کے دستے اس کے علاوہ تھے۔ پاک فوج کے مقابلے میں دشمن کی طاقت سات گنازیادہ تھی۔ چنانچہ 16دسمبر کو پاک فوج کو ڈھاکہ ریس کورس میں ایک سازش کے نتیجہ میں ہتھیار ڈالنے پڑے۔
بھارت مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر 1950ء کی صریحاً خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا۔ اسی طرح بھارت 1966ء کے ان پاک بھارت معاہدوں کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کا مرتکب ہوا تھا جن میں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر اور دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی اس امر کا واضح ثبوت تھا کہ بھارت کو پاکستان کے معاملے میں نہ UNOکے چارٹر کی پروا ہے اور نہ اپنے کئے ہوئے معاہدوں کی پاسداری ہے۔ بھارت کاآج بھی پاکستان کے ساتھ یہی رویہ، یہی برتائو اور سلوک ہے۔ ایک طرف بھارتی حکمران سرحدوں کو نرم کرنے کی بات کرتے اور دوسری طرف پاکستان میں اعلانہ دہشت گردی کررہے ہیں۔ گزشتہ سال 16دسمبر کو پشاور آرمی پبلک سکول کے المناک سانحہ میں دن کا انتخاب ہمیں بتانے کے لئے کافی ہے کی یہ کاروائی ہمارے ازلی دشمن بھارت کی ہے۔
اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ 1971ء کے موقع پر بہت سے لوگوں نے پاکستان کو متحد رکھنے کی کوششیں کی تھیں، بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ابتداً شیخ مجیب الرحمن نے جنگی جرائم کے تحت ان پر مقدمہ چلانا چاہا لیکن بعد میں ان لوگوں کو پاک فوج کے ساتھ تعاون کرنے والا قرار دے کر معاملہ ختم کر دیا گیا تھا۔ اب بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت 43سال بعد طے شدہ معاملات کو ایک بار پھر اٹھا رہی ہے۔ پاکستان کو متحد رکھنے کی کوششیں کرنے والوں کو عمر قید اور پھانسی کی سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ یہ سب کچھ بھارتی حکومت کی ایما پر کیا جا رہا ہے۔ اس کا واضح مطلب ہے کہ بھارت کی پاکستان دشمنی کا پرنالہ آج بھی اسی جگہ ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں ہمیں بحثیت قوم اپنا جائزہ لینا ہو گا کہ 43سال کا عرصہ گزرنے کے بعد آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم نے اس سانحہ سے کیا سبق حاصل کیا…؟ ہم سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں، ان غلطیوں کی اصلاح کیسے اور کیوں کر ممکن ہے؟ کہا جاتا ہے کہ 1971ء میں ہم عسکری اعتبار سے کمزور تھے اس لیے بھارت کو جارحیت کی جرأت ہوئی۔ جزوی طور پر یہ بات درست ہے
لیکن پوری صورت حال کو پس منظر و پیش منظر کے ساتھ سمجھنے کے لئے ہمیں 1965ء اور 1971ء کی جنگ کا تھوڑا سا موازنہ کرنا ہو گا۔دونوں جنگوں میں صرف سات سال کا وقفہ ہے۔ اس مختصر عرصہ میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ۔بات یہ تھی کہ 65ء میں ہمارا اعتماد ہمارا توکل اللہ پر تھا۔ ہمارا اتحادی اللہ تھاایوب خان کی تقریر کے ایک جملے ”لا الہ پڑھتے چلو آگے آگے بڑھتے چلو ” نے پورے ملک میں فضائے بدر کی کیفیت پیدا کردی تھی۔71ء کی جنگ میں ہمارے حکمرانوں نے اللہ کو چھوڑ کر امریکہ کو اپنا اتحادی بنالیا اور بھول گئے کہ جو اللہ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیں ساری دنیا مل کر بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور جو اللہ کو چھوڑدیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
پس 16دسمبر کے سانحہ کا سب سے بڑاسبق یہی ہے کہ ہم اپنا تعلق اللہ سے مضبوط کریں۔اسلام کو عملاََ اپنی زندگیوں میں نافذ کریں۔اللہ سے کئے ہوئے وعدوںکو ایفا کریں۔1947ء میں ہم نے پاکستا ن کو اسلام کی جاگیر بنانے ،بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کی مدد اور کشمیر آزاد کروانے کے وعدے کیے تھے۔ان وعدوں کے ایفا میں ہی ہماری عزت اور کامیابی ہے۔
تحریر : پروفیسر حافظ محمد سعید