تحریر: شاہد شکیل
ہماری روزمرہ زندگی میں اتفاق سے بہت کچھ رونما ہوتا ہے لیکن انسانی سوچ ،واقعات اور حالات کے پیش نظر اسے کئی دیگر الفاظ میں بھی بیان کیا جاتا ہے مثلاً اچانک ایکسیڈنٹ ہونے سے بچ جانا ،ندی میں نہاتے ہوئے پانی میں ڈوبنے سے بچ جانا،کسی معصوم بچے کا سیڑھیوں سے پھسلنا اور خراش تک نہ آنے کے علاوہ کئی واقعات کو ہر انسان اپنی سوچ اور نقطہ نظر کے مطابق اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ اللہ نے بچا لیا ،اللہ کی مرضی تھی یا محض اتفاق تھا۔ یہ بھی ایک اتفاق تھا کہ اپنے دوست کی دعوت پر بون میں منعقد ہونے والے فلمی میلے میں گیا جہاں میری ملاقات انڈین فلمسٹار نصیر الدین شاہ اور پاکستانی فلم اور ٹی وی سٹار عثمان پیرزادہ سے ہوئی ،زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ انسان سوچتا اور پلاننگ کچھ کرتا ہے اور ہو اس کے برعکس جاتا ہے جس کے نتیجے میں عام طور پر دل برداشتہ ہونا پڑتا ہے لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اتفاق سے حادثات کی بجائے انقلاب آجاتا ہے کچھ لوگ ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے لیکن حقائق سے منہ نہیں موڑا جا سکتااتفاق سے ہی دنیا میں کئی لوگوں نے ایسی اشیاء ایجاد اور دریافت کیں کہ دنیا میں انقلاب لے آئے۔
ویاگرا،آلو چپس، مائکرو ویووغیرہ کسی پلان کے تحت نہیں بلکہ اتفاق سے ایجاد ہوئیں انہیں دریافت کرنے کیلئے مجدددین نے نہ کوئی تیاری کی اور نہ پلاننگ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر ایجاد اور اسکی کامیابی میں منصوبہ بندی کی جائے ،انسانوں کو ان اتفاقی طور پر ایجاد کرنے والے سائنسدانوں کا ممنون ہونا چاہئے کہ انہوں نے ایسی ایجادوں سے دنیا بھر میں انقلاب برپا کیا جس سے آج ساری دنیا مستفید ہو رہی ہے۔مائیکرو ویو۔ایک چاکلیٹ کے ٹکڑے سے کھانا بنانے کی مشین ایجاد ہوئی اور انقلاب آگیا،انیس سو پینتالیس میں ایک امریکی انجینئر پیرسی سپینسر کو پگھلی ہوئی چاکلیٹ سے آئیڈیا آیا کہ کھانوں کو مائیکرو ویو کی تابکاری سے گرم ہی نہیں بلکہ مکمل تیار بھی کیا جا سکتا ہے۔ پیشہ ورانہ طور پر سپینسر نے میگنی ٹرون کے ذریعے مائیکرو شعائیں پیدا کیں تجربے کے دوران جب وہ مائیکرو لہروں کے قریب پہنچا تو اس نے محسوس کیا کہ اسکی جیب میں پڑی چاکلیٹ پگھل گئی ہے اور تب اس نے سوچا کہ ان لہروں یعنی مائیکرو ویو شعاعوں سے چاکلیٹ پگھل سکتی ہے تو گوشت اور سبزی وغیرہ بھی نرم اور گرم ہو سکتے ہیں۔
انیس سو پچاس میں سپینسر نے الیکٹرک مقناطیس کی مدد سے ایک تجربہ کیا اور اوون بنانے میں کامیاب ہو گیا اس وقت کا تیار کردہ مائیکرو ویو کپڑے کی الماری جتنا اور مونسٹر نما تھا جسے صرف انڈسٹری میں استعمال کیا گیاانیس سو ساٹھ میں مائیکرو ویو کچن میں آیا اور آج دنیا بھر میں استعمال کیا جاتا ہے یہ اتفاق ہی تھا کہ چاکلیٹ کے ذریعے انسانی دماغ نے چولہا دریافت کیا۔ ویاگرا۔انیس سو بیانوے میں امریکی دواساز کمپنی فائزر نے دل کی نالیوں کو آرام پہنچانے کیلئے لیبارٹریز میں ٹیسٹ کیا اور جس فرد کو جو دل کا مریض تھا بَلی کا بکرا بنایا دوا سے اسے سائڈ ایفیکٹ ہوا دل کی بیماری وہیں رہی اور بلڈ پریشر ہائی ہونے کے بعد عضوع تناسل میں غیر متوقع طور پر مزید قوت پیدا ہو گئی ماہرین اچانک اس تبدیلی پر حیران ہوئے اور دل کی نالیوں کو آرام پہنچانے کے ٹیسٹ کو ادھورا چھوڑ کر ایک نئی تحقیق میں مصروف ہوگئے اور آخر کار اتفاق سے ویاگرا جیسی ٹیبلٹس بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
یورپ میں اجازت نامہ کے بعد خرید وفروخت ہوئی بعد ازاں دنیا کے ایک سو بیس ممالک کی مارکیٹ میں روشناس کروایا ،طبی ماہرین کا کہنا ہے یہ اتفاق ہی تھا کہ دل کی نالیوں پر ٹیسٹ شاید کامیاب نہ ہوتا لیکن ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ دنیا بھر میں شادی شدہ جوڑوں کو خوش و خرم دیکھنے کے بعد ہمارا مقصد پورا ہو گیا۔آلو کے چپس۔اٹھارہ سو تریپن میں ایک امریکی ریستوراں میں ایک گاہگ کو کچن شیف کے دو بار بنائے گئے آلو پسند نہیں آئے اور ہر بار یہ کہہ کر واپس لوٹا دئے کہ آلو بہت موٹے ہیں اور مصالحہ بھی نہیں ہے باورچی کو شدید غصہ آیا اور کہنے لگا اب اسکو ایسے آلو کھلاؤں گا کہ ساری زندگی نہ دیکھے ہونگے اور نہ کھائے ہونگے۔
کی ٹیبل پر رکھ کر انتظار کرنے لگا آلوؤں کو اتنا باریک دیکھ کر دیگر لوگ بھی متوجہ ہوئے اور گاہک نے کھانے کے بعد باورچی کی تعریف کے پل باندھنا شروع کر دئے اور یہاں سے آلوؤں کے ان باریک قتلوں کو ساراٹوگا نام دیا گیا۔ آج یہی چپس دنیا کے ہر ملک ، ریستوراں اور گھروں میں سب بہت خوشی اور شوق سے کھاتے ہیں شیف نے بدتمیزی کا بدلہ موٹے آلوؤں کو پتلا کر کے لیا لیکن انقلاب لے آیا۔پینسیلین۔کوئی نہیں جانتا کہ اس دوا نے کتنے انسانوں کی جان بچائی ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ پینسیلین ہی وہ اہم دوا ہے جس سے فوری طور پر آرام آجاتا ہے۔
انیس سو اٹھائیس میں سکاٹش سائنسدان الیگزینڈر فلیمنگ سٹیفی لوکوکس جراثیم پر تحقیق کر رہا تھا دوران تجربہ ایک آلودہ ،اُلی لگی اور سڑی شے نمودار ہوئی اور فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے دوسری دوا سے اس انجانے وائرس کو زائل کر نے کے لئے استعمال کیا اور کامیاب ہو گیا ،طبی زبان میں اس مکس میڈیسن کو پینسیلین نو ٹیٹم کا نام دیا کئی برسوں بعد فلوری اور چین نے مزید ریسرچ کی اور دوا کو پینسیلین کا نا م دیا۔ دوسری جنگ عظیم میں لاکھوں فوجیوں کی جان پینسیلین کے استعمال سے بچائی گئی اگر یہ دوا اتفاق سے ایجاد نہ ہوتی تو اب تک دنیا بھر میں لاکھوں کروڑوں انسان موت کا شکار ہو جاتے۔انیس سو پینتالیس میں فلیمنگ،فلوری اور چین کو طب کا نوبل انعام دیا گیا۔
تحریر: شاہد شکیل