تحریر : میاں وقاص ظہیر
وزرات داخلہ کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی رپورٹ پر میرا جی چاہ رہا ہے کہ پاکستان میں گڈگورننس کا صبح وشام ڈھونڈا پیٹنے اور ملکی ترقی کے جھوٹے خواب دکھانے والوں کو مبارک باد پیش کروں بلکہ ایسی گڈ گورننس کرنیوالو ں کو گلدستے بھیجوں ،جنہیں ایسی باتیں کرتے وقت رتی برابر شرم نہیں آتی اور نہ ہی ان کی زبان لڑکھڑاتی ہے کہ اتنا بڑا جھوٹ ،فریب ،دھوکا ہم کس کو دے رہے ہیں۔
وزارت داخلہ کے اعداد وشمار کے مطابق پانچ سالوں میں ملکی مجموعی” حسن کارکردگی” کے حوالے سے ملک بھر میں ڈکیتی اور چوری کے ایک لاکھ 19ہزار796 ڈکیتی ،چوری کے 3لاکھ 74ہزار 730مقدمات جبکہ خود کش دھماکوںکے 165 کیس رجسٹرڈ ہوئے ،یہاں پنجاب حکومت کے خود ساختہ خادم اعلیٰ اور بتائے جانے والے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف مبارک باد کے اس لئے مستحق ہیں کہ ان کا صوبے یعنی پنجاب 93ہزار126ڈکیتی اور31ہزار730چوری کے مقدمات کے ساتھ مجموعی اعدادوشمار کیساتھ سرفہرست رہا ہے۔
چوری اورڈکیتی کے مقدمات میں سائیں سرکار کا صوبہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے جہاں 21ہزار201ڈکیتی اور 46ہزار 238چوری کے مقدمات درج ہوئے،خیبر پختوانخو بھی یہاںکسی سے پیچھے نہیں جو پانچ سالوںمیں 106 خود کش دھماکوں کیساتھ سرفہرست ہے،بطور صحافت کے طالبعلم کی حیثیت سے اس بندہ ناچیز کو موجودہ جمہوریت کی تشریح سمجھ نہیں آرہی ہیکہ ہم نے جو کتابوں میں جمہوریت کی تعریف پڑ ھ رکھی ہے اس کے مطابق تو ہماری ملکی جمہوریت توجمہوریت کم اور موروثیت زیادہ ہے ،سیاستدا ن کو ایک مفت مشورہ ضرور دو ں گا کہ موجود ہ جمہوریت کا” تیاپانچا ”نہ کریں ہاں! کسی اخبار میں درستگی نام کا اشتہار دے کراسے جمہوریت کو موروثیت کے لبادے سے آزاد کریں جو یقینا ان کے بس کی بات نہیں یا جمہوریت ،جمہوریت کی تسبی پھیرنا بند کریں ،اﷲکا واسطہ ہے قوم کے ساتھ جھوٹ اور مذاق بندکردیں ، نام قوم کا اورمفادات اپنے ،ملکی نظام اور سیاست دانوں نے سیاست کو آلودہ کرنے میں رتی برابر کسر نہیں چھوڑی۔
ہر بار نئے وعدے اوردعوؤں سے عوام کوبیوقوف بنانے والے بہروپیو ں نے ٹشو پیپر کی طرح اپنے ووٹرز کو استعمال کیا ہے ،آج ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ کرپٹ شخصیت تمام مال ومتاع کھاپی کر ڈکار لئے بغیر کرپشن کے الزام کو ثابت کرنے اور ثبوت سامنے لانے کی بات کرتا ہے اور اگر ثبوت سامنے آبھی جائیں تو اسے مخالفت کا رنگ دے کر اس کیس سے ایسے نکلتا ہے جیسے مکھن سے بال اور خود مظلوم بن کر عوام کے سامنے خود کو پیش کرتا ہے۔
اگر ملک میں نظام نام کی کوئی چیز موجود ہوتی تو کیا مجال اس بیوروکریٹوں ،ٹیکس چورروں اوربے ضمیر سیاستدانوں کی جو موت کو بھلا بیٹھے اور روز جزاء کو جھٹلا بیٹھے ہیں جواقتدار اور شخصیت کو دوائم بخشنے کیلئے کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں،ڈھٹائی کی حد دیکھیں ایک طرف غریب ملک میں اورنج میٹرو ٹرین کی باتیں دوسری جانب تعلیم وصحت کے فقدان میں گرا ہوا معاشرہ ۔۔۔۔جہاں مائیں سیڑھیوں پر بچے جنم دینے لگیں ہیں۔
ایک طرف دم توڑتی زراعی صنعت دوسری جانب معیشت کی ترقی کے دعوے ۔۔۔۔۔ایک طرف والدین اولادیں فروخت کرنے پر مجبور دوسری جانب تجارت کے سنہری خواب ۔۔۔۔۔ایک طرف دووقت کی روٹی کھانا مشکل دوسری جانب بھاری بھرکم بلوں کا عذاب،ایک طرف سندر فیکٹری جیسے واقعات دوسری جانب سب اچھا کی رپورٹ،ایک طرف قتل وغارت ،چوریاں ،ڈکیتیاں ،لاقانونیت ،خواتین کی عصمت دری ،جبری مشقت،پرتشدد واقعات دوسری جانب بدلا ہے۔
پنجاب اور بدلیں گے پاکستان کے نعرے شرم آنی چاہیے ایسی باتیں اور نعرے لگانے والوں کو۔۔۔ سیاست کی قربان گاہ میں عوام کی قربانیاں قیام پاکستان سے قبل شروع ہوئی تھیں جو جاری وساری ہیں ۔۔۔۔جو بھی اپنے ووٹ کاصحیح استعمال نہیں جانتے تو تباہی ایسے ووٹرز کیلئے جنہیں نے اپنے فیصلے سے اس دندے کو ایوان کی زینت بنایا ہے ،جس کا کام صرف اور صرف انسانیت کا خون پی کر اپنا پیٹ بھرناہوا چاہئے اس کا طریقہ کوئی بھی ہو۔
تحریر : میاں وقاص ظہیر