1۔پاگل
میں آئینے میں ایک پاگل کو دیکھ کر مخاطب ہوا۔
سب لوگ کہتے ہیں میں پاگل ہوں۔
ہاں شاید میں پاگل ہی ہوں گا۔
کیونکہ اگرمیں اپنے آپ کو پاگل نہیں سمجھتا تو اس کا مطلب ہے کہ میں پاگل ہوں۔
کیونکہ ہرپاگل یہی کہتا ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں۔
اگرمیں واقع ہی پاگل ہوں تو یہ فہم و فراست اور علم و عمل کا منبع معاشرہ ایک دوسرے کو کیوں پاگلوں کی طرح کاٹ رہا ہے۔
2۔ مخنث
اس نے میرا ہاتھ چھوڑا اور مجھ سے مخاطب ہوئی۔
ضروری نہیں کہ ہم عمر بھر ساتھ رہیں۔
اور ایک ساتھ زندگی گزاریں۔
مجھے تمہارے علاوہ اور کون سہارادے سکتا ہے؟
کون میری تنہا راتوں کا ہم سفر ہو سکتا ہے؟
تم جانتی ہوں کہ میں مخنث ہوں .
ہاں شاید یہی وجہ ہے۔
کیا صرف دو انسانوں کا جنسی تعلق ہی سب کچھ ہے۔
صائم کیا ہم اس تعلق کے بغیر اپنے وجود کا اقرارکر سکتے ہیں یا اسے برقرار رکھ سکتے ہیں۔
تم میں، ہم سب اسی کی بدولت ہیں۔
3۔ جہاد
سرمیں جہاد پے جانا چاہتا ہوں۔
بیٹا کیوں؟
سر مجھے روہنگیا مسلمانوں کو بدھو بکشوؤں کے ظلم سے نجات دلانی ہے۔
فلسطینیوں کو ان کی غضب شدہ زمین واپس دلوانی ہے۔
شام کے بشار الااسد کے ظلم بند کروانے ہیں۔
کشمیرکو پاکستان کی حقیقی معنوں میں شہہ رگ بنانا ہے۔
مگرمیں ایک زندگی اور اتنے کم عرصے میں یہ کیسے کروں گا۔
بیٹا کوئی مشکل کام نہیں۔
سر: وہ کیسے
بیٹا جیسے تم نے بلوچستان سے مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔
اب ہر اقلیت ہمارے ملک میں محفوظ ہو گئی ہے۔
اب کسی مسجد، امام بارگاہ ، بازا راور سکول میں دہشت گرد حملہ نہیں کرتے۔
اب عید، میلاد ، میلہ اور محرم کے جلوس کو کوئی سیکورٹی نہیں چاہیے ہوتی۔
جب تم اتنے کم وقت میں یہ سب کر سکتے ہو۔
تو یہ تو کچھ بھی نہیں۔
4۔ بس ہوسٹس
اب تو تم بس ہوسٹس کی نوکری کر رہی ہو۔
کافی عزت دار اورسکون کی نوکری ہو گئی ہے۔
سکون سے سارے سفرمیں گاڑی میں بیٹھنا۔
اور اگلے دن گھر پہنچ جانا، پیسے بھی معقول ہیں۔
اور کیا چاہیے غزالہ
ہاں سہی کہتی ہو۔
اور کیا چاہیے زندگی میں۔
ہاں جب سکون دہ نوکری میں 35،40 مرد عزت دارنظروں سے میرے اعضاء کی تشریح کرتے ہوئے ایسے جملے کستے ہیں۔ اور ایسی خصوصیات کا ذکر کرتے ہیں۔
جس کا مجھے بھی علم نہیں ہوتا۔
تو میں سوچتی ہوں۔
کہ زندگی میں اورکیا چاہیے؟
5۔ سرکس
میں تمہیں دل سے چاہتا ہوں۔
تم میرے حواس پر نہیں دل و جان پر سوار ہو۔
جناب ہماری محبت کو اپنے دل سے شہر بدر کر دیں۔
ورنہ ایسا رن پڑے گا کہ کچھ سمجھائی نہ دے گا۔
جناب ہمارے ناز نخرے کوٹھوں کی پالکیوںپر جچتے ہیں۔
شریفوں کے رسوئی گھروں میں نہیں۔
ایسا مت کہو رانی
تو کیا آپ کوٹھے پے میرے ساتھ رہنا پسندکریں گے ۔
میں اور کوٹھے پے رہنا؟
کیوں حضور آپ آسکتے ہیں تو رہ نہیں سکتے۔
رانی، میں سید ذادہ ہوئی۔
حضور ہم بھی اسی کوٹھے کے سیدو سردار ہیں۔
جس طرح آپ کا کوٹھے پے رہنا محال ہے۔
اسی طرح ہمارا شریفوں کے گھروں میں۔
حضور لوگ سرکس میں آتے ہیں دیکھتے ہیں خوش ہوتے۔
مگر وہاں کے جانور لے جا کے اپنے گھروں کی زینت نہیں بناتے۔
جائیے اوراپنے بیوی بچوں کو وقت دیجیے۔
6۔ لیٹرین
میں پبلک لیٹرین بہت کم استعمال کرتا ہوں۔
مگر جب حاجت بڑھ جائے تو اس کے سامنے کون ٹک سکتا ہے؟
میں ایک پبلک لیٹرین کے پاس رُکا۔
اگرچہ غلاظت کی بھر مار تھیں۔
مگر اطمینان کے چار دیواری ہے۔
کہ میرے لئے کھلی جگہ پے دیوار کی سمت منہ کرکے جانوروں کی طرح کھڑے ہو کر یا ٹانگ اٹھا کر اپنی حاجت پوری کرنا ممکن نہیں۔
لیٹرین کا فرش مختلف رنگوں کے پانی سے بھرا ہوا تھا۔
کہیں تیز زرد رنگ اور کہی ہلکا
اور عجیب حواس باختہ کرنے والی بدبو اور فلیش پر پتلے پاخانے کی کڑی۔
اور دیواریں پر حسینوں اورمردوں کے عضلات کی تصویریں جن کے سبب دنیا کی آبادی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
اس دوران میرے لئے سانس لینا دشوار اور روکنا نا ممکن ۔
کہ اچانک دیوار پر ایک خوبصورت حسینہ کی چسپاں تصویر نے مجھے دم بخودکر دیا۔
بد بو اور گٹھن کے اثرات کسی خواہش میں تبدیل ہو گئے۔
اور نکلتے وقت ہم لیٹرین کی دیواروں پر اپنی بے بسی کے نشان چھوڑ آئے۔