وعدہ کے مطابق میں بالواسط گھر کابھیدی آج سیارۂ سندھ کا آپ سے حتمی تعارف کرائوں گا۔ میں نے خود کو بالواسطہ گھر کا بھیدی اس لئے لکھا ہے کہ میں بلا واسطہ گھر کا بھیدی نہیں ہوں۔ کچھ گھر کے بھیدی میرے ہم پیالہ اور ہم نوا ہیں۔ ان سے میری گاڑھی چھنتی ہے۔ جب کسی سے آپ کی گاڑھی چھنتی ہے تب راز، راز نہیں رہتے۔ گھر کے بھیدیوں کے ساتھ ایک عمر گزارنے کے بعد میں گھر کا بھیدی ہونے کا دعویٰ تو نہیں کر سکتا مگر میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ میں بالواسطہ گھر کا بھیدی، بلاواسطہ گھر کے بھیدیوں کے برابر یا کچھ زیادہ سیارۂ سندھ کے بارے میں جانتا ہوں لیکن سندھ کے بھید بتانے اور لنکا ڈھانے سے پہلے میں سندھ کے بارے میں آپ کی کچھ غلط فہمیاں دور کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ یہ جو آپ نے سنا ہے کہ سندھ میں دس پندرہ خام تیل اور گیس کے کنویں کام کر رہے ہیں، سراسر غلط ہے، افواہ ہے۔ دس پندرہ خام تیل اور گیس کے ذخائر سندھ میں کام کر رہے ہوتے تو ہماری حکومت کو دوستوں اور دشمنوں سے امداد لینا نہ پڑتی۔ اب کشکول کا رواج ختم ہو چکا ہے، اِس لئے ہمارے حکمران خالی ہاتھ امداد لینے جاتے ہیں۔ کسی وجہ سے اگر امداد دینے والے عین موقع پر مکر جائیں اور امداد دینے سے انکار کر دیں تو خالی ہاتھ لوٹ آنے سے کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ امداد کے لئے کشکول لے جانا اور ناکامی کے بعد خالی کشکول کے ساتھ وطن واپس آجانا خواری کا سبب بن جاتا ہے۔ اب تو گلی کوچوں، بازاروں میں بھیک مانگنے والوں کے ہاتھ میں بھی کشکول نظر نہیں آتا۔ کشکول کا دور ختم ہو چکا، اب امداد لینے اور امداد دینے کے نئے طور طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔ ہم ووٹ دینے والے نہیں جانتے کہ ووٹ لینے والوں کو کتنی اور کہاں سے امداد ملتی ہے، کون وصول کرتا ہے، کہاں خرچ ہوتی ہے، کون خرچ کرتا ہے؟ میرے کہنے کا مطلب ہے کہ آپ کو کسی منصوبے کے تحت خوش فہمی میں رکھا گیا ہے کہ سندھ میں دس پندرہ خام تیل اور گیس کے کنویں ملک کو مالا مال کر رہے ہیں۔ وہ مال کہاں جاتا ہے، کس کس کے اکائونٹ میں جاتا ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ آپ کو غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کے لیے اس طرح کی افواہیں پھیلائی گئی ہیں۔
اندرونِ سندھ کے ایک بہت ہی چھوٹے شہر کا نام ہے جوہی۔ ایک بے پرکی افواہ کے مطابق جوہی کے اطراف چھ سات گیس اور خام تیل کے کنویں ہیں۔ یہ بھی افواہ پھیلائی گئی ہے کہ کچھ غیر ملکی کمپنیاں گیس اور خام تیل کے کنوئوں پر کامیابی سے کام کر رہی ہیں۔ یہ افواہ بھی گردش میں ہے کہ جوہی سے ملنے والی گیس اور خام تیل کا بیرونی کمپنیاں باقاعدہ کاروبار کررہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک افواہ کے تحت جب ہندوستان کی نامور اداکارہ جوہی چاولہ کو سندھ کے قصبہ جوہی سے ملنے والی گیس اور خام تیل کے ذخائر کا علم ہوا تو اس نے اپنی چلنے والی فلموں کی شوٹنگ رکوا دی اور سندھ کی یاترا پر نکل پڑی۔ اس نے دونوں ممالک کی عدالتوں میں دعویٰ ڈال دیا کہ سندھ میں جوہی کا علاقہ اس کے آبائو اجداد کی جاگیر ہے۔ اس حوالے سے جوہی کے چھ سات گیس اور خام تیل کے کنوئوں کی جائز مالکن وہ خود، جوہی چاولہ ہے۔
ایک افواہ یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ حکومت پاکستان سے تحریری معاہدے کے مطابق جوہی سے ملنے والے تیل اور گیس کے ذخائر کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں نے اپنی کمائی کا دس فیصد جوہی کو گل و گلزار بنانے پر لگا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جوہی میں اسکول، کالج ہیں۔ دوچار یونیورسٹیز کے کیمپس ہیں۔ اسٹیٹ آف دی آرٹ سہولیات کے ساتھ کلینک اور اسپتال ہیں۔ روڈ راستے ہیں، باغ باغیچے ہیں، پینے کے لئے صاف ستھرا پانی ہے، بجلی ہے، وائی فائی انٹرنیٹ، توانائی کی ہر سہولت موجود ہے۔ ہیلی کاپٹروں کے اترنے کے لئے ہیلی پیڈ ہیں۔ ایک ایئر پورٹ ہے، کمپنیوں کے قوانین کے مطابق ان کے ملازم مہینے میں بیس دن کام کرتے ہیں اور دس دن جہاں وہ چاہیں گزار سکتے ہیں۔ اس کے لیے ان کو ہیلی کاپٹر کی سہولت دی جاتی ہے۔
ایک افواہ یہ بھی ہے کہ یہ افواہیں بکواس ہیں۔ جوہی کا پورا علاقہ پسماندگی، غربت اور افلاس کی منظر کشی کرتا ہے کیونکہ گیس اور تیل کے ذخائر پر کام کرنے والی کمپنیاں جوہی کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے کمپنی کی کمائی سے دس فیصد مختص کی ہوئی رقم علاقے کے وڈیروں، سرداروں، پیر سائیوں اور پولیس میں بانٹ دیتی ہیں۔
سندھ کو بدنام کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ افواہوں کے بازار گرم رکھے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کرپشن میں سندھ ایشیا کا بے تاج بادشاہ ہے۔ افواہوں کے مطابق سندھ میں کرپشن کا اندازہ آپ اس مثال سے لگا سکتے ہیں کہ ایک قاتل گولی چلانے سے پہلے گولی کھانے والے سے پوچھتا ہے کہ بتا تجھے گولی کہاں ماروں، سر میں ماروں یا سینے میں؟ دونوں کے الگ الگ ریٹ ہیں۔
بالواسطہ گھر کا بھیدی ہونے کے ناتے میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ سندھ کے سیاسی وڈیرے، سردار، جاگیردار، پیر سائیں، اور سرکاری افسران بے انتہا ایماندار، نیک نمازی، صوم صلوٰۃ کے پابند، خدا ترس، ہمدرد، علم دوست اور انسانیت کے پیکر ہیں۔ جہاں کرپشن ہوتی ہے، وہاں تعلیم وتربیت کا دیوالیہ نکل چکا ہوتا ہے۔ ایسے ماحول میں جائز سے جائز کام رشوت لئے اور دیئے بغیر نہیں ہوتا مگر سندھ میں ایسا نہیں ہے۔ سندھ کے ننانوے فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں۔ ہم حیران ہیں کہ سندھ کے وہ ایک فیصد بدبخت لوگ کون ہیں جو پڑھے لکھے نہیں ہیں؟
پتا نہیں چلتا کہ کھیل شروع ہونے سے پہلے کھیل ختم کیسے ہو جاتا ہے؟ ہمیشہ سے اس طرح ہوتا رہا ہے۔ ابھی ابھی تو ہم نے بات شروع کی تھی۔ ابھی ابھی تو کرداروں نے آپ کے سامنے قدم رکھا تھا، پھر بات ختم کیسے ہوگئی؟ ہم آپ کی غلط فہمیاں دور کرتے رہے اور سیارۂ سندھ کا تعارف التوا کا شکار ہو گیا۔ شکار میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ گولی کسی اور پر چلائی جاتی ہے اور لگتی جاکر کسی اور کو ہے۔ اگلے منگل کے روز جنگل میں گم ہو جانے سے پہلے میں گھر کا بھیدی آپ سے سیارۂ سندھ کا بھرپور تعارف کرائوں گا۔