گزشتہ کافی عرصہ سے سوشل میڈیا پر کئی ایسی خبریں پوسٹ ہوئیں جو زیادہ تر انکشاف اور سنسنی خیزی پر مبنی تھیں،ان خبروں نے جہاں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کیا وہیں عوام کوبھی ہیجانی کیفیت میں مبتلا رکھا ۔ایسی خبروں کا نتیجہ زیادہ تر کھودا پہاڑ نکلا چوہا والے محاورے کے مترادف ہی نکلا۔ سوشل میڈیا پر نہ صرف خبریں بلکہ دلیلوں کی صورت میں ایسی تصاویریں بھی پوسٹ کی گئیں جنہیں دیکھنے کے بعد انسانی دماغ سچ اور جھوٹ کی تمیز کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے ۔
قارئین کی نظر سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایسی خبروں پر ضرور پڑی ہوگی جس میں کبھی ملک کے معروف مزاحیہ فنکار عمر شریف کی موت، کبھی معروف ملکی سائنس دان ڈاکٹر قدیر خان کی رحلت کی افواہ تھی، خبریں تصاویر کے ساتھ اس قدر گردش کرتی رہیں کہ کئی ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز سوالیہ نشان کے ساتھ چلنے لگیں اور بات اس حد تک بڑھ گئی کہ عمر شریف صاحب اور ڈاکٹر صاحب کو میڈیا اور سوشل میڈیا پر آکر اپنی موت کی خبر کی تردید کرنی پڑی۔ ایسے ہی کبھی سابقہ وزیراعظم نواز شریف کی والدہ کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہوئے لی جانے والی تصاویر کو کمال مہارت سے تبدیل کرکے سوشل میڈیا پر پھیلایا گیا کہ نواز شریف صاحب سعودی عرب میں کسی سعودی شہزادے کے ہاتھوں کا بوسہ لے رہے ہیں ۔ستم یہ ہے کہ ماضی میں سوشل میڈیا پر کئی ایسی خبریں بھی زیر گردش رہیں جو منافرت کی ترویج کا باعث بنیں اور ان کی وجہ سے کئی لوگوں کی جانیں چلی گئیں ۔ایسی تمام خبروں کی وجہ سے ایک باشعور انسان کا اب سوشل میڈیا سے اعتبار اٹھتا جارہا ہے۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سوشل میڈیا پر کئی ایسی خبریں بھی پوسٹ ہوئیں جو نہ صرف سچ ثابت ہوئیں بلکہ ان کی وجہ سے معاشرے پر اس کے اچھے اثرات ہوئے ۔ سوشل میڈیا پر زیر گردش حالیہ واقعات میں سب سے اہم واقعہ قصور میں قتل کی جانے والی بچی زینب کاہے جسے سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلا کر اسے منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی اور یہ کوشش نہایت کامیاب رہی جہاں ملک کے حکمرانوں نے اس جانب توجہ دی وہیں ملکی ادارے بھی حرکت میں آگئے اور یہ معاملہ تیزی سے حل کی جانب رواں دواں ہوگیا اور اس وجہ سے زینب کا قاتل پکڑا گیا۔
قاتل کی گرفتاری کے بعد سوشل میڈیا پر ایسی خبریں گردش کرنے لگیں جو نہ صرف اس کیس کو کسی دوسری سمت لے جاتی نظر آئیں بلکہ عدالت کو گمراہ کرنے کی مترادف بھی ہوئیں ۔ معذرت کے ساتھ لکھ رہا ہوں کہ ایک جانب تو یہ سانحہ ہی بہت دل خراش تھا کہ ایک معصوم بچی کو زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا دوسری جانب سوشل میڈیا پر اس بچی کو روز قتل کیا جارہا ہے،اس کے جسم کو گدھوں کی طرح نوچ نوچ کر مفروضوں پر مبنی خبریں، تجزیئے اور انکشاف کیئے جارہے ہیں جیسے ملک میں کوئی دوسرا ادارہ نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر ہی زینب کیس کی تحقیقات کی جارہی ہوں۔ کوئی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو مشکوک قرار دے رہا ہے تو کوئی چائیلڈ پورنوگرافی کے گروہ سے مجرم کا تعلق بتارہاہے کوئی اس واقعے میں حکومتی اعلی شخصیات کو ملوث قرار دے رہا ہے اور اپنے انکشاف کی دلیل کے طور پر ایسی ایسی تصاویر پوسٹ کی جارہی ہیں کہ بس کیا کہا جائے۔
زینب کیس پر نظر رکھنے والے لوگوں کو اس وقت شدید ذہنی دھچکا لگا جب ایک ٹی وی اینکر نے بڑے وثوق سے یہ انکشاف کیا کہ زینب کے قاتل عمران کے ذاتی نام سے کئی ملکی اور غیر ملکی اکاؤنٹس موجود ہیں۔ اینکر نے نہ صرف اکاؤنٹ کا ہونے کا بتایا بلکہ اکاؤنٹ میں کتنے یورو اور ڈالر ماہانہ آتے ہیں اس کے بارے میں بھی تفصیل بتاڈالی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جہاں پوری قوم ایک ہیجان کی سی کیفیت میں مبتلا ہوگئی وہیں سپریم کورٹ نے تمام ثبوت کے ساتھ اینکر کو طلب کرلیا ۔ اینکر صاحب نے تو سپریم کورٹ کے حوالے اکاؤنٹس کی وہ فہرست کردی اور ایک پرچی پر دو نام بھی لکھ کر دے دیئے جو ان کے بقول حکومتی اعلی شخصیات ہیں ۔اب اس خبر کے بعد سوشل میڈیا پر بینک اکاؤنٹس کی وہ ثبوت آنا شروع ہوگئے کہ لگنے لگا کہ زینب کیس اب نئی سمت میں چلے گا اور مزید کئی لوگ عتاب میں آئیں گے۔
اینکر کے اس انکشاف کے بعد میں خود یہ سوچنے لگا کہ ایسا کس طرح ممکن ہے کہ ایک مجرم جو کسی بین الاقوامی گروہ کا کارندہ ہے اور اس کے پیچھے کئی بااثر افراد ہیں تو وہ یہ گھناؤنا کاروبار بینک اکاؤنٹ کے ذریعے کرے گا اور وہ بھی اپنے ہی ذاتی نام اور شناختی کارڈ پر کھولے گئے بینک اکاؤنٹس سے یہ سوچنے کے بعد کم ازکم مجھے اینکر صاحب کی بات کے درست ہونے پر قطعی یقین نہیں تھا پھر ہوا بھی کچھ یوں ہی کہ اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے کے بینکنگ سرکل نے اینکر کے اس دعوی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے غلط قرار دے دیا۔
اس تمام صورت حال میں ہوا یہ کہ جہاں تحقیقاتی اداروں اور سپریم کورٹ کا وقت ضائع ہوا اور عوام کا میڈیا پر اعتماد مزید کمزور ہوا وہیں عالمی سطح پر وطن عزیز کی بدنامی ہوئی ۔ کچھ عرصے پہلے کراچی میں “سوشل میڈیا ،وقت کی ضرورت “کے عنوان سے ایک تقریب منعقد ہوئی تھی جس میں مجھ سمیت تمام ہی مقررین اس بات پر متفق تھےکہ سوشل میڈیا کے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایسی غلط اور جعلی خبروں کا سدباب کیا جاسکے ۔ اب ہمیں خود بھی چاہیئے کہ وطن عزیز کے بہترین مفاد میں ایسی خبروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ایک باشعور قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں مسترد کردیں اور بغیر تحقیق کے کسی بھی ایسی خبر کو مزید آگے پھیلانے میں اپنا حصہ نہ ڈالیں۔