واشنگٹن /اسلام آباد(ویب ڈیسک ) امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ طالبان کے بانی رہنماؤں میں شامل ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کابل کی جانب سے طویل عرصے سے کیے جانے والے مطالبے کی تکمیل ہے، جسے واشنگٹن میں موجود سفارتی حلقے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بہتری سے تشبیہہ دے رہے ہیں۔
ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کی تصدیق کےلیے جب ڈان نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم ان اطلاعات سے آگاہ ہیں اور آپ کو پاکستانی حکام یا افغان حکومت سے رابطہ کرنے کے لیے کہیں گے جو طویل عرصے سے امن عمل میں شمولیت کے لیے ان کی ر ہائی کے خواہاں تھے۔خیال رہے کہ 2 روز قبل افغان طالبان نے ان میڈیا رپورٹس کی تصدیق کردی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی حکام نے طالبان کے سابق نائب سربراہ کو بغیر کسی شرط کے رہا کردیا ہے۔واضح رہے کہ ملا عبدالغنی برادر نے ملا عمر کے ساتھ مل کر تحریک طالبان کی بنیاد رکھی تھی اور وہ 2001 میں افغانستان پر امریکی حملے سے قبل طالبان حکومت کا اہم حصہ تھے۔انہیں فروری 2010 میں انٹرسروسز انٹیلیجنس (ٓئی ایس آئی) اور امریکی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) نے مشترکہ کارروائی میں کراچی سے گرفتار کیا تھا۔خیال رہے کہ امریکی سفیر خاص زلمے خلیل زاد کی قطر کے دارالحکومت دوحا میں طالبان سے ملاقات ہوئی تھی جس میں افغان مسئلے کے پرامن حل کے لیے مختلف آپشنز پر غور کیا گیا تھا جس کے بعد 2 ہفتوں سے بھی کم وقت میں طالبان رہنما کی رہائی عمل میں آئی امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق 12 اکتوبر کو زلمے خلیل زاد کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں طالبان کے مطالبے پر متعدد دیگر
طالبان رہنماؤں کو رہا کیا گیا ہے جن میں ایک ملا عبدالغنی بھی ہیں۔کابل سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ملا عبدالغنی برادر پاکستان میں ہی رہیں گے اور دوحا میں قائم طالبان کے آفس کے ذریعے کابل اور اسلام آباد میں رابطہ رکھیں گے۔امریکی میڈیا کی رپورٹس میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر کی رہائی عمران خان کے وزیراعظم بننے کا بھی نتیجہ ہے کیوں کہ وہ طویل عرصے سے افغانستا ن میں 18 سال سے جاری جنگ کو مذاکرات سے ختم کرنے کے حامی ہیں۔اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ ان کی رہائی سے طالبان اور امریکا کے درمیان امن مذاکرات کو تقویت ملے گی جس کے پہلے 2 ادوار ہوچکے ہیں۔اس ضمن میں سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان نے 2013 میں ملا عبدالغنی برادر کو اس وقت رہا کرنے کا اعلان کیا تھا جب دوحا میں طالبان کا آفس قائم ہوا تھا تاہم اس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے اس کے قیام کی سخت مخالفت کی تھی ۔اسی دوران پاکستان نے کابل حکومت کے نمائندوں کی قید میں ملا عبدالغنی سے ملاقات پر رضا مندی کا بھی اظہار کیا تھا لیکن طالبان سے ان سے ملنے سے انکار کردیا تھا۔ذرائع کے مطابق افغان حکومت کی جانب سے بارہا پاکستان سے طالبان رہنما کی رہائی کو مطالبہ کیا گیا تھا جن کا ماننا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے ملا عبدالغنی برادر ایک انتہائی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔