اسلام آباد(ویب ڈسیک ) وزارت خزانہ میں موجود عہدیداروں کی بڑی تعداد اور حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ اعلیٰ اراکین کا ماننا ہے کہ اسد عمر کو وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹانے کے پیچھے معاشی پالیسیاں نہیں بلکہ ’سیاسی‘ وجوہات تھیںڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس نقطہ پر جواز پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ روز قبل ہی وزیر اعظم نے بین الاقوامی مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے مجوزہ بیل آؤٹ پیکج میں کیے گئے مطالبات پر ایڈجسمنٹ کے پیمانے کو کم کرنے کے لیے اسد عمر کی کوششوں کی تعریف کی تھی۔ذرائع کا کہنا تھا کہ اسد عمر جو وزیر اعظم کے قریبی ساتھی تصور کیے جاتے تھے، انہیں اپنے ہٹانے کی خبر ’بڑے سرپرائز‘ کے ساتھ ملی کیونکہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے سلسلے میں واشنگٹن کے ’کامیاب‘ دورے کے بعد وہ اس طرح کے کوئی اقدام کی امید نہیں کر رہے تھے۔اس حوالے سے اس تمام صورتحال کے قریب ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ہم آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام کے ساتھ بنیادی فریم ورک معاہدے پر تقریباً متفق ہوگئے تھے‘۔ذرائع نے مزید بتایا کہ اسد عمر آئی ایم ایف پیکج کی سخت ترین شرائط کو تبدیل کرنے کے بعد اپنے ساتھی کابینہ اراکین کے ساتھ خوشی منا رہے تھے لیکن انہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ وزیر اعظم کا ان کے لیے کوئی دوسرا ہی پلان ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ وزارت میں تبدیلی واشنگٹن میں موجود آئی ایم ایف کے اعلیٰ حکام کے لیے ایک بہت بڑا سرپرائز تھا۔مذکورہ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اسد عمر کے مختلف ساتھیوں کے لیے ایک سرپرائز کے طور پر سامنے آیا کیونکہ وہ بھی اس سے باخبر تھے کہ عمران خان کا بیان تھا کہ وہ وزیر خزانہ تو نائب وزیر اعظم کے طور پر تصور کرتے ہیں۔دوسری جانب وزارت خزانہ کے سینئر عہدیداروں اور کابینہ کے کچھ اراکین جنہیں اسد عمر کو ہٹانے کے بارے میں براہ راست معلوم تھا، انہوں نے گفتگو کے دوران وزیر اعظم کے اس اچانک فیصلے کے پیچھے مختلف وجوہات بیاں کیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے قیمتوں میں اضافہ، بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھنا اور ساتھ ہی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں نمایاں کمی کے معاملے پر حکومت کے خلاف جاری مہم کی وجہ سے عمران خان پر شدید دباؤ تھا۔اس بارے میں ایک کابینہ رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’وزیر اعظم کا خیال تھا کہ اسد عمر کے قلمدان میں تبدیلی اپوزیشن اور میڈیا کی طرف سے تنقید کو کم کردیں گے‘۔تاہم انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کو اس بات کی امید نہیں تھی کہ ’ان کے قریبی ساتھی‘ دیگر وزارت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیں گے۔