counter easy hit

ناقابل یقین انکشاف

Incredible Disclosure

لاہور(ویب ڈیسک) خیبرپختونخوا میں پکڑے جانے والے کروڑوں روپے مالیتی سرکاری بلڈ بیگز پنجاب کے بڑے سرکاری ہسپتالوں سے چوری ہونے کا انکشاف، محکمہ صحت خیبرپختونخوا نے پنجاب کے ادارہ انتقال خون کو مراسلہ بھجوا دیا ۔ تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا میں پکڑے جانے والے لاکھوں بلڈ بیگز میوہسپتال، لاہور جنرل ہسپتال، چلڈرن ہسپتال،  ملتان، گوجرانوالہ، فیصل آباد کے سرکاری ہسپتالوں سے چوری شدہ ہیں۔ چوری کی ان وارداتوں میں سرکاری مافیا ملوث ہے جن کے خلاف کارروائی کرنا پنجاب حکومت کی ذمہ داری ہے۔ مراسلے کے میو ہسپتال کے بلڈ بینک سے ہزاروں کی تعداد میں اے پی ڈی بیگ، میگایونٹ اور ڈائیگاناسٹک کٹس چوری ہو کر خیبرپختونخوا میں فروخت ہو رہی ہیں۔ مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ بلڈ بیگز فروخت کرنے والے گروہ کا سربراہ ملک زاہد اعوان نامی شخص ہے جو لاہور کے تمام بلڈ بینکوں سے انتہائی کم قیمت پر سامان خرید کر لیبل تبدیل کر کے خیبرپختونخوا میں فروخت کرتا ہے، رپورٹ میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک زاہد اعوان اپنے ساتھیوں شاہد لیب اٹنڈنٹ بوبی سویپر کے ذریعے شاہد کے آٹو رکشے میں مال رکھ کر لے جاتا ہے اور اس کے بعد ان کے رکشوں میں لاہور کے تمام بلڈ بینکوں سے مال اٹھاتا ہے اور اس کے لیبل تبدیل کر کے فروخت کرتا ہے اس کے ساتھ اس کام میں جمیل، ارسلان، یاسر، عنصر، جاوید مسیح اور علی نقوی شامل ہیں۔ لاہور میں سب سے پہلے ان کا ایک ساتھی محمد حسین لیب اٹنڈنٹ بھاری مال لے جاتا ہوا پکڑا گیا۔ مال پکڑے جانے کی اطلاع پر ملک زاہد نے محمد حسین کو فوری طور پر میوہسپتال سے تبدیل کروا دیا۔ دوسری مرتبہ انکشاف تب ہوا جب خیبرپختونخوا پولیس نے میوہسپتال کی مہر والے سرکاری بلڈ بنک کے مال کی پوری گاڑی پکڑی اور ایف آئی آر درج کر لی مگر تفتیش کا دائرہ میوہسپتال تک نہ پھیل سکا۔ اس سلسلے میں ڈائریکٹر ادارہ انتقال خون ڈاکٹر قمر ضیاء سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ تحقیقات کر کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا پولیس سے رابطہ کر کے میوہسپتال سے چوری شدہ بلڈ بنک کا مال بھی واپس لائیں گے۔ یاد رہے بلوچستان میں صرف کوئٹہ میں تھیلے سیمیا کےمریضوں کی نگہداشت اور ضروری سہولیات کی فراہمی کے لئے دو مراکز قائم ہیں۔ ان میں سے ایک بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال اور دوسرا مرکز سنڈیمن صوبائی ہیڈکوارٹر اسپتال سے متصل ایک عمارت میں قائم ہے۔پروفیسر ندیم صمد شیخ کا کہنا تھا کہ اس وقت ہماری سب سے زیادہ توجہ اس بات پر ہے کہ لوگوں کو بتایا جائے کہ ان کے خاندان میں تھیلے سیمیا کیسے آیا؟ بچے تھیلے سیمیا کا شکار کیوں ہوئے؟ اگر ایک بچہ تھیلے سیمیا میجر کا پیدا ہوگیا تو اگلا بچہ ایسا نہ ہو۔ اس حوالے سے دوران حمل ٹیسٹ سے پتہ لگایا جا سکتا ہے۔دوسری جانب کوئٹہ کےعلاوہ اندرون صوبہ کسی دوسرے ضلع میں تھیلے سیمیا کےمراکز موجود نہیں۔ اس صورتحال میں اسکرین شدہ خون کا انتقال یقینی نہ ہونے سے تھیلے سیمیا کے مریض ہیپاٹائٹس اور ایڈز کا بھی شکار ہورہے ہیں۔ تھیلے سیمیا سٹی سینٹر کے انچارج ڈاکٹر عدنان مجید کےمطابق کوئٹہ کےعلاوہ دیگر شہروں میں تھیلے سیمیا کیئر سینٹر اوراسکرین شدہ خون کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے تھیلے سیمیا کاشکار بچوں میں غیر اسکرین شدہ خون لگادیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے بچوں میں ہیپاٹائٹس اور ایڈز کا وائرس بھی منتقل ہوجاتاہے۔ اس طرح کے بچے ہمارے پاس رپورٹ ہوئے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website