مکّہ(ویب ڈیسک) 20نومبر 1979ء کو مسجد الحرام پر اڑھائی تین سو کے قریب اسلامی عسکریت پسندوں نے مسجد الحرام پر دھاوا بول دیا تھا اور وہاں موجود تقریباً دس ہزار کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ان افراد نے خانہ کعبہ میں موجود تمام گارڈز سے اسلحہ چھین لیا اور تمام داخلی دروازے بند کر دیئے۔
ان عسکریت پسندوں میں سعودی‘ مصری‘ حتیٰ کہ امریکا اور کینیڈا سے تعلق رکھنے والے نو مسلم بھی شامل تھے۔دہشت گردوں کا یہ قبضہ تقریباً دو ہفتے تک برقرار رہا۔ ان دہشت گردوں نے خانہ کعبہ میں موجود بے گناہ مسلمانوں کا خون بھی بہایا۔ رب کے گھر کے عسکریت پسندوں کے ناپاک وجود کے خاتمے کے لیے سعودی پاکستانی سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مشترکہ کارروائی کی گئی جس میں سب حملہ آور مارے گئے۔ان حملہ آوروں کا سربراہ سعودی شہری جہیمان العقیبی تھا جو مملکت میں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کر رہا تھااور تمام خلافِ اسلام سرگرمیوں پر سخت پابندی کا حامی تھاتاہم اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے خانہ کعبہ پردھاوا بولنے پر دُنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے دِل دُکھی ہوئے اور اُس پر خوب لعن طعن کی گئی۔ جس وقت انتہا پسند جہیمان نے مسجد الحرام پر قبضہ کیا تھا‘ اُس وقت اُس کا بیٹا ہذال ایک سال کا تھا۔ اُس کی والدہ نے اُسے زیور تعلیم سے آراستہ کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ نیشنل گارڈز میں بھرتی ہوا اور اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر وہ اِن دِنوں کرنل کے عہدے پر ترقی پا چُکا ہے۔اس کی ترقی کی خبر سوشل میڈیا پر گفتگو کا خاص موضوع بن گئی۔ ایک سعودی شہری نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ اگرچہ ہذال کا باپ سعودی عرب میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ مگر اُس کے بیٹے نے اپنے باپ کی انتہا پسند شخصیت کا خود پر سایہ نہیں پڑنے دِیا۔ اسی باعث اُس پر اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے اُسے مملکت میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سرگرم عمل سعودی نیشنل گارڈز میں اعلیٰ عہدے پر فائز کیا گیا ہے۔ یقیناًہذال کو اس بات کا بہت کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے اپنی شخصیت کی خود تعمیر کیا۔