1914 ء میں 28 جولائی کو شروع ہونے والی جنگ 11 نومبر 1918 کو 90 لاکھ فوجیوں ، 70 لاکھ شہریوں کی زندگیاں لینے کے بعد ختم ہوئی
لاہور: انسان ایک دوسرے کو اس وقت سے نقصا ن پہنچاتے آ رہے ہیں جب سے انہیں اس بات کا علم ہوا ہے کہ اس دنیا میں طاقت حاصل کرنا کتنا ضروری ہے ۔طاقت کے حصول کے لئے دنیا میں کئی لڑا ئیاں ہوئیںجن میں سے ایک پہلی عالمی جنگ ہے جب دنیا کے کئی ممالک اپنی اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے لڑ رہے تھے۔ یہ جنگ 28 جولائی 1914ء کو شروع ہوئی اور 11 نومبر 1918ء کو 9 ملین فوجی اور 7 ملین عام شہریوں کو لقمہ اجل بنانے کے بعد اختتام کو پہنچی ۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کے علاوہ سپینش فلو نامی بیماری نے بھی لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا ۔ یہ جنگ دنیا میں انسانوں کے درمیان ہونے والی چھٹی بدترین لڑائی تھی ۔ پہلی عالمی جنگ سے متعلق کچھ ایسے حقائق ہیں جن سے عام آدمی آج تک انجان ہے ۔
اس جنگ نے امریکہ کو عسکری لحاظ سے دنیا کا سب سے طاقتور ملک بنا دیا ۔ ایک فرانسیسی سپاہی کا کمرہ آج بھی اسی حالت میں موجود ہے جیسا 1918ء میں تھا ۔ عالمی جنگ کے دورا ن ایک کبوتر نے پیغام رسانی کے ذریعے 194 افراد کی جان بچائی جس میں اس کی ایک ٹانگ اور آنکھ بھی ضائع ہوئی ۔ موجودہ کیمو تھراپی عالمی جنگ میں استعمال ہونے والی مسٹرڈ گیس کی ضمنی پیداوار ہے ۔ امریکی شہریت نہ ہونے کے باوجود 13 ہزار مقامی امریکیوں نے پہلی عالمی جنگ میں حصہ لیا ۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران ایک برطانوی فوجی نے جس زخمی جرمن کی جان بخشی اس کا نام ایڈولف ہٹلر تھا ۔ جنگ میں حصہ لینے والے سپاہیوں میں سب سے کم عمر سپاہی 8 سال کا ایک چھوٹا بچہ تھا۔عالمی جنگ کے دوران کتوں کو بھی پیغام رسانی کے لئے استعمال کیا گیا۔ لوگوں میں محب وطنی کا جذبہ اجاگر کرنے کے لئے جنگ کے دوران امریکی حکومت نے ہیم برگر کا نام تبدیل کر کے لبرٹی برگر رکھنے کی بھی کوشش کی ۔ پہلی عالمی جنگ کے متعلق ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس جنگ کے دوران جرمنی ، برطانیہ اور روس کے حکمران ایک دوسرے کے ’’فرسٹ کزنز‘‘تھے۔
عالمی جنگ کے بعد جرمن فوج کے جس سپاہی نے ایڈولف ہٹلر کو ’’ آئرن کراس‘‘ دینے کی سفارش کی وہ ایک یہودی تھا۔الائیڈ افواج جنگ کے دوران جرمن افواج پر بے دریغ فائرنگ کرتی تھیں تاکہ فائرنگ کے نتیجے میں گرم ہونے والی مشین گن پر چائے بنا نے کے لئے پانی ابالاجاسکے۔پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی کا قرضہ 96ہزار ٹن سونے کے برابر تھا۔اس جنگ میں استعمال کی جانے والی زہریلی گیس نے تقریباً1.3ملین لوگوں کو موت کی نیند سلادیا۔پہلی عالمی جنگ میں 8ملین گھوڑے ہلاک کئے گئے اور جو بچ گئے ان کو کسی بھی اور کام کے لئے’’ ان فٹ ‘‘قرار دے دیا گیا۔ جرمن حکومت پہلی عالمی جنگ کی ذمہ دار تھی۔ جرمنی نے بلقان کی جنگ کو ممکن بنایا۔ انہوں نے یہ جانتے ہوئے کہ سربیا پر آسٹریا اور ہنگری کے حملے سے یہ بڑی جنگ بن سکتی ہے، اس کی حوصلہ افزائی کی۔جرمنی نے نہ صرف آسٹریا کی غیر مشرو ط حمایت کا اعلان کیا بلکہ اس نے روس اور فرانس کو بھی الٹی میٹم دینے شروع کر دیئے تھے۔
جرمنی نے عالمی معاہدوں کی دھجیاں بکھیر دیں، اور یہ جانتے ہوئے کہ اگر بیلجیئم پر حملہ ہوا تو برطانیہ بھی اس جنگ میں شریک ہو جائیگا، اس نے لگسمبرگ اور بیلجیئم پر یلغار کر دی۔ڈاکٹر ہیتھر جونز کے مطابق آسٹریا، ہنگری ، جرمنی اور روس کے چند سخت گیر سیاست دان اور فوج کے پالیسی ساز پہلی جنگ عظیم کے ذمہ دار تھے۔1914 ء سے پہلے شاذ و نادر ہی کوئی شاہی قتل کسی جنگ کا سبب بنا تھا۔ آسٹریا اور ہنگری کے سخت گیر فوجیوں نے سرائیوو میں ہنگری کے شاہی خاندان کے افراد کے بوسنیائی سربوں کے ہاتھوں قتل کو سربیا پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہا۔سربیا اس وقت انتہائی عدم استحکام کا شکار تھا، لیکن وہ اس کے باوجود اپنی سرحدوں کو وسیع کرنے کی بھی کوشش کر رہا تھا۔ وہ 1912ء کی جنگ میں تھک چکا تھا اور 1914ء میں مزید جنگ نہیں چاہتا تھا۔یہ جنگ پورے یورپ میں اس وقت پھیلنے لگی جب جرمنی نے آسٹریا اور ہنگری کی سربیا پر حملہ آور ہونے کی حوصلہ افزائی کی لیکن جب روس سربیا کی مدد کرنے لگا تو جرمنی نے بلغاریہ کے راستے روس اور اس کے اتحادی فرانس پر یلغار کر دی۔ اس صورتِ حال نے برطانیہ کو بھی اس جنگ میں گھسیٹ لیا۔
کسی سرکاری ایجنسیوں کے پاس جنگ کے سالوں کے دوران شہریوں میں نقصانات کا ریکارڈ نہیں ہے، مگر محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں براہ راست یا بالواسطہ طور پرہلاک ہونے والے غیر فوجی افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔اتنی بڑی ہلاکتوں کی وجہ سے “اسپینش فلو” پھیل گیا جو تاریخ کی سب سے موذی انفلوئنزا کی وباء ہے۔ لاکھوں کروڑوں افراد بے گھر ہو گئے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے۔ جائیداد اور صنعتوں کا نقصان بہت خطیر تھا، خاص طور پر فرانس اور بیلجیم میں، جہاں لڑائی بہت شدید تھی ۔ 9 نومبر 1918ء کو بڑے پیمانے پر پھیلے ہوئے تناؤ اور جرمن فوج کے سربراہوں کی دستبرداری کے بیچ شہنشاہ (قیصر) ولیم 2 نے جرمنی کا تخت چھوڑ دیا۔ اسی دن ایس پی ڈی نے فیلیپ شائیڈی مان کو نائب بنا کر بھیجا اور جرمنی میں فرائیڈرش ایلبرٹ کو عبوری حکومت کا سربراہ بنا کر نئی جمہوریہ کا اعلان کر دیا ۔ دو دن بعد کیتھولک سینٹر پارٹی زینٹرم کی قیادت میں جرمنی کے نمائدے متھئیس ارزبرگر نے اتحادی قوتوں کے کمانڈنگ جنرل فرانسیسی فیلڈ مارشل فرڈینینڈ فوچ کی قیادت کے تحت فاتح اتحادی قوتیوں کے وفد کے ساتھ مپیگ نے جنگل میں ایک ریل کے ڈبے میں ملاقات کی اورصلح کی شرائط قبول کرلیں۔ 11 نومبر 1918ء کی صبح 11 بجے مغربی محاذ پر جنگ بند ہو گئی۔ اس زمانے کے لوگ اس جنگ کو “جنگ عظیم” کے نام سے منصوب کرتے تھے، یہ بند ہو گئی لیکن اس کے اثرات بین الاقوامی سیاسی، اقتصادی اور سماجی حلقوں میں آنے والی کئی دہائیوں تک جاری رہے۔