کابل (ویب ڈیسک) افغانستان کی پارلیمان میں ثقافتی امور سے منسلک مشیر مینا مانگل جو کہ اس سے قبل صحافت کے پیشے سے بھی منسلک رہی ہیں کو نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا ہے۔بی بی سی افغان سروس کے مطابق مینا مانگل جو کہ ماضی میں ٹی وی سے منسلک رہی ہیں کی ہلاکت کی تصدیق افغان وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ انھیں ہفتہ کو دارالحکومت کابل میں اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے دفتر جا رہی تھیں۔مانگل نے اپنے صحافتی کریئر کے دوران مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی کے فرائض انجام دیے۔افغانستان میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن وزما فروغ نے ایک میڈیا بیان میں بتایا کہ مانگل نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں لکھا تھا کہ انھیں لگتا ہے کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے۔پولیسں کا کہنا ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کر رہی ہے۔صحافی ملالی بشیر نے ایک ویڈیو پوسٹ کیا ہے جس میں ان کے مطابق مانگل کی والدہ حکام سے قاتلوں کی گرفتاری کی اپیل کر رہی ہیں۔ویڈیو کے ساتھ ملالی بشیر نے لکھا ہے کہ مینا مانگل کی والدہ نے ‘مشتبہ قاتلوں کا نام بھی لیا ہے اور بتایا ہے کہ انھوں نے کچھ عرصہ قبل بھی مینا مانگل کو اغوا کیا تھا۔ انھوں نے افغانستان کے اٹارنی جنرل کے دفتر کے چند افراد کا نام لیا کہ ان کی رشوت لینے کی وجہ سے اغوا کرنے والے بچ نکلے۔’سوشل میڈیا میں مینا مانگل کی ہلاکت پر سخت رد عمل ظاہر کیا گیا ہے۔ جلال محسود نامی ایک شخص نے لکھا: ‘صحافیوں کا قتل بند کرو۔ دہشت گرد صحافی کو قتل کر سکتے ہیں لیکن بے نوا کی آواز کو نہیں روک سکتے۔’احمد شاکر قرار نے قتل کی مذمت کرتے ہوئے لکھا: ‘اس کریہہ جنگ نے ہمیں اخلاقی طور پر گرا دیا ہے۔ افغان روایت میں خواتین کے قتل کی کبھی کوئی جگہ نہیں رہی ہے۔ اس واقعے کی تحقیق ہو اور مرتکبین کو ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔’بہت سے لوگوں نے ‘ہمیں انصاف چاہیے’ کے ساتھ مینا کی موت پر اظہار تعزیت کیا ہے جبکہ احمد جمیل یوسفزئی نامی ایک صارف نے لکھا: ‘دہشت نے اپنی پیاس بجھا لی۔ کیونکہ ایک اور مینا (محبت) (آج) مر گئی۔'(ش س م)