جس کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ شہباز شریف کو صاف پانی اسکینڈل میں بے ضابطگیوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا،بعد ازاں نیب کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ انہیں آشیانہ ہاوسنگ اسکیم میں بے قاعدگیوں پر گرفتار کیا گیا ہے۔تاہم اس کے بعد سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا اور انکے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی تاہم شہباز شریف کے وکیل کی مخالفت کے بعد عدالت نے 10 روز کا جسمانی ریمانڈ دے دیا جس کے بعد انہیں نیب حوالات میں منتقل کردیا گیا تھا اور شہباز شریف تاحال نیب حوالات ہی میں ہیں۔نیب کے ملزمان کو ڈسٹرکٹ جیل کیمپ میں رکھا جا تا ہے لیکن مذکورہ جیل میں پہلے سے ہی آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں مبینہ طور پر بنے والے وعدہ معاف گواہ فواد حسن فواد اور احمد چیمہ سمیت دیگر گرفتار سابق سرکاری افسران پہلے سے جیل میں ہیں۔ جس وجہ سے شہباز شریف کو سنٹرل جیل کوٹ لکھپت میں رکھا جائے گا۔وہاں انکو ذرا بہتر کلاس دی جائے گی۔وہ 2 مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں جس کے باعث انہیں مختلف سہولیات بھی فراہم کی جائیں گی۔انکی جیل میں انکو دو خدمتگار، پڑھنے کو اخبار،تکیہ، میٹرس اور دیگر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چونکہ شہباز شریف پہلے ہی سے کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں ،اسی لیے انکو علاج معالجے کی بہتر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔واضح رہے کہ نیب لاہور کی تین رکنی ٹیم نے آشیانہ اقبال سکینڈل کے حوالے سے شہباز شریف سے باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کر دیا۔نیب نے شہباز شریف سے پوچھا کہ پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی بنانے کا مقصد کیا تھا، جس پر انہوں نے کہا کہ غریبوں کو سستے گھر دینا چاہتا تھا۔ نیب ٹیم نے سوال کیا کہ پنجاب میں پہلے سے محکمے موجود ہونے کے باوجود کمپنیاں بنانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی بنانے کا بنیادی مقصد اور ضرورت کیا تھی۔نیب ٹیم نے شہباز شریف سے آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کے ٹھیکے میں مداخلت سے متعلق بھی سوالات کیے، جس کے جواب میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ کمپنیوں کا ماڈل صوبے میں گڈ گورننس کو فروغ دینے کے لئے لایا گیا۔ شہباز شریف نے کہا کہ صوبے کا سربراہ ہونے کی حیثیت سے عوام کے پیسے کی حفاظت کرنا میری ذمہ داری تھی، جیسے ہی آشیانہ اقبال میں بے قاعدگیوں کا پتہ چلا تو تمام قانونی آپشنز بروئے کار لانے کا کہا گیا۔ ذرائع کے مطابق شہباز شریف سے آشیانہ اقبال کے ساتھ ساتھ دیگر منصوبوں پر بھی سوالات کیے جائیں گے۔