تحریر: عاقب شفیق
پانچ برس قبل اسلامیہ پبلک سکول قلندر آباد میں چودہ اگست کو تقریب تقسیم انعامات تھی، تمام والدین مدعو تھے،جنگِ آزادی سے لیکر یومِ آزادی تک کا بہترین ڈرامہ تیار کیا گیاتھا۔ میں نے اس سٹیج پلے میں مولانا محمد علی جوہر کا کردار ادا کرنا تھا۔ جب میں نے مولانا محمد علی جوہر کی دوسری گول میز کانفرنس میں کی گئی تقریر کو ” رَٹا لائیز“ کرنے کا آغاز کیا تو وہ اس قدر جذباتی تھی کہ مجھے تاریخ کے مطالعہ پر اُکسانے لگی۔ دادا جان سے مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں پوچھا۔ دادا جان نے قریب مکمل تحریکِ آزادی اور سفرِ آزادی کے المناک واقعات سنائے۔
” احمد اورنورین دو بہن بھائی تھے۔وہ والدین کے ہمراہ دکن میں رہتے تھے۔ ان کے والد تحریکِ آزادی کے سرگرم کارکن تھے۔ جب آزادی کی تحریک عروج پر پہنچی تو وہ امی ابو کے ساتھ چندی گڑھ میں قیام پذیر ہو گئے کہ جونہی پاکستان کے قیام کا اعلان ہوگا تو ہم امرتسر کے راستے لاہور چلے جائیں گے اور ہندوؤں کے تعصبانہ رویئے اور فرنگیوں کے مظالم سے مستقل نجات حاصل ہو جائے گی۔تین ماہ تک قیام پاکستان کے اعلان کے انتظار میں وہ چندی گڑھ میں ہی رہے۔جب ریڈیو پر انہوں نے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا اعلان سُنا تو شکرانے کے نوافل ادا کر کے سٹیشن پہنچے۔ امرتسر ریلوے سٹیشن پر تمام ریل گاڑیاں بھری ہوئی تھیں۔ چھت پر بھی پیر دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ انہوں نے لاکھ کوشش کی کہ کسی طرح ریل گاڑی میں چڑھ جائیں لیکن ناکام رہے۔ گاڑی ” پآں“ کی صدا بلند کرتی ہوئی چلتی بنی۔ انکے دلوں کی دھڑکن تیز ہوتی جا رہی تھی۔ جب دوسری گاڑی امرتسر سٹیشن پر رکی تو یہ جلدی سے اس میں چڑھ گئے۔ تمام ڈبے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ گاڑی ابھی چلی ہی تھی کہ تین چار جھٹکوں سے اچانک رک گئی۔ شور و غل شروع ہو گیا ۔ چیخ و پکار نے سب کو حیران کر دیا۔
وہاں پیلے کپڑوں میں ملبوس کچھ ہندو تلواریں ، خنجر، برچھیاںاور ڈھنڈے لئے ریل گاڑی کے انجن میں گھُس کر خون خرابہ کرنے کے بعد باقی ڈبوں کی سمت دوڑ رہے تھے۔ کچھ لوگ دائیں بائیں بھاگے ۔۔ کچھ لوگ وہیں سیٹوں کے نیچے چھپ گئے۔ احمد نے باہر جھانک کر دیکھا تو کہیں کٹے ہاتھ دکھائی دیئے تو کہیں کٹے سر۔۔۔ معصوم سہم گیا۔ عجیب سماں تھا ۔۔ ریل گاڑی کو چھوڑیں کیسے؟ کہ اسی نے چل کر پاکستان کی سرزمین کی سمت جانا ہے اور ہمیں محفوظ کرنا ہے اور اس پر رہیں تو کیسے؟ کہ یہ ظالم ہمیں کاٹ ڈالیں گے۔۔ ”ساری لڑکیوں کو باہر نکالو ورنہ تم ساروں کو چیر کر رکھ دوں گا۔ ۔۔“ کالے رنگ کا بڑی بڑی مونچھوں والا بھیانک ساشخص جس کے ہاتھ میں خون سے لتی تلوار تھی اور صرف پیلے رنگ کی شلوار پہن رکھی تھی وہ چلا رہا تھا۔۔۔ تھوڑی ہی دیر میں ساری لڑکیاں ریل گاڑی سے اتر کر سٹیشن کی چھت کے نیچے ہندوؤں کے گھیرے میں کھڑی تھیں۔ کچھ مسلح گاڑی میں چڑھ آئے اور نہتوں کی خون کی ندیاں بہا دیں۔۔
احمد سیٹ کے نیچے چھپا تھا۔ عجیب طرح کی چیخ و پکار تھی۔ احمد کو محسوس ہواکہ اب کوئی اس کی سمت آ رہا ہے۔ وہ مزید سکڑ گیا۔ اسکی تلوار سے خون کا قطرہ احمد کے ہاتھ پر گرا۔ احمد نے آنکھیں زور سے بندی کر لیں ۔۔ قدموں کی آہٹ سے پتا چلا کہ وہ دوسری جانب چلا گیا ۔احمد نے اُٹھ کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو لڑکیوں کی برہنہ لاشیں پڑیں تھیں اور بعض کے پستان کاٹ کر سٹیشن کی دیواروں پر ”پاکستان مردہ باد“ کے نعرے لکھے جا رہے تھے۔ بے چاریاں زخموں سے تڑپ رہی تھیں ۔۔۔ سسک رہی تھیں۔۔۔ بلک رہی تھیں۔۔۔۔ اور پھر ساکت ہوتی چلی جا رہیں تھیں۔۔ احمد کی نگاہیں نورین کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ مگر اسے کہیں بھی بہن دکھائی نہ دی۔۔ چند ہندوؤں نے نوجوان زندہ لڑکیوں کو باندھ کر ساتھ لے لیا۔ اور وہاں سے فرار ہو گئے۔ احمد حواس باختگی میں اُٹھا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا۔۔ جلدی سے ڈبے سے اُترا تو دیکھا کہ اسکے ابو نیچے پٹھڑی پر پڑے تھے۔ انکی ایک ٹانگ خون میں لت پت علیہدہ پڑی تھی۔ وہ چیختا ہوا آگے بڑھا اور باپ کو جھولی میں لیا۔ ۔ ۔ وہ آخری سانسیں لے رہے تھے۔ ” احمد ! بیٹا یہاں سے بھاگ جاؤ۔۔ جس سمت سورج جائے اسی سمت چلتے رہنا۔۔۔ ہمت نہ ہارنا۔۔۔ چلتے رہنا۔۔۔ بڑھتے رہنا۔۔۔ آخر کار پاکستان کی سرزمین پر پہنچ جاگیا۔ گے۔ تم خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا۔۔۔۔ اب مغرب کی سمت میں بھاگتے جاؤ۔۔۔“ یہ کہہ کر انکا چہرہ دائیں جانب جھک گیا۔
احمد سٹیشن کی سمت بھاگا اور وہاں پڑی خواتین کی سسکیوں اور تڑپ نے اسے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ کئی خواتین زندہ تھیں ۔۔۔ کئی آخری سانس لے رہی تھیں۔۔۔ اور بہت ساری لے چکی تھیں۔ ۔ ۔ اچانک اس کی نگاہ اپنی ماں پر پڑی۔۔۔ وہ برہنہ پڑی تھی۔۔۔ سینے پر گوشت نہیں تھا ۔۔۔۔ وہاں خون کی سرخی میں پسلیاں دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ احمد نے جلدی سے اپنی قمیض اتاری اور لاش کا ناف سے گھٹنوں کا حصہ ڈھانپ دیا۔۔۔ نگاہ پھر ماں کے چہرے پر پڑی تو ایسی چیخ نکلی کہ عرش کانپ اُٹھا۔۔۔ کوئی ذی شعور وہاں ہوتا تو یہ منظر اسکی جان لے لیتا۔۔۔ وہ اپنے بال نوچنے لگا۔۔۔ گال نوچ ڈالے۔۔۔ ماں کا منہ چومنے لگا۔۔ چیخ چیخ کر ماں کی لاش کو گلے لگاتا رہا۔۔۔ پھر دیگر لاشوں میں بہن کو ڈھوندا مگر وہ نہ ملی۔۔۔۔شائد وہ قیدیوں میں ہو۔۔۔ احمد کے کانوں میں باپ کے آخری الفاظ گونجنے لگے۔۔۔ وہ اُٹھا اور مغرب کی طرف چلنا شروع کر دیا۔۔ ہمسفر ملتے گئے۔۔۔ کچھ کھانے کو۔۔کچھ پینے کو ان سے ملا اور آخر کار اور لاہور پہنچ کر سجدے میں گر پڑا۔۔۔ ماں باپ اور بہن کی یاد، تڑپ اور پیار نے اسے نوچ کر رکھ دیا ۔۔۔۔ اسی رنج میں وہ اکتوبر انیس سو سینتالیس کو جہانِ فانی سے چل بسا۔۔۔۔“
خیر، چودہ اگست کو ہونے والے سٹیج پلے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھی۔۔۔حاضرین نشستوں پر براجمان تھے۔۔۔۔ پردہ گرا ہوا تھا ۔۔ پردہ اُٹھا اور سٹیج پلے کا آغاز ہو گیا۔۔۔ یہ اتنا حساس تھا کہ حاضرین کو رلا کے رکھ دیا۔۔ تمام لوگوں کو احساس دلا دیا کہ وطنِ عزیز کس قدر دشواریوں اور قربانیوں سے حاصل ہوا ہے۔۔۔ پرفارمنس کے بعد مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے گرے پردے سے جھانک کر حاضرین کو دیکھا تو ایک ضعیف العمر خاتون عینک اتار کر ایسے رو رہی تھیں کہ اپنا شعور ہی نہ رہا۔۔ حاضرین پر رقت طاری ہو چکی تھی۔۔۔ رات جب میں گھر لوٹا تو اسی خیال تھا کہ اس قدر زیادہ قربانیاں؟ اُف۔ ہمیں احساس تک نہیں کہ ہم یہاں کس طرح رہ رہے ہیں ،۔۔۔ ہمیں شعور ہی نہیں ہے کہ ” اسلامی جمہوریہ پاکستان“ کی بنیادوں میں کتنا پاک خون بہا ہے جو اس کی اتنی مضبوط بنیادی اُٹھائی گئی ہیں۔ اسی خیال میں تھا کہ میں کھانا کھائے بغیر سو گیا۔
اس نیند میں آنے والے خواب نے میری زندگی بدل کے رکھ دی: ” حشر کا میدان سجا ہوا ہے۔۔ اللہ تعالیٰ عدل و انصاف کے فیصلے سنا رہے ہیں۔۔ عدل کے تقاضے خداوند ذوالجلال ایسے پورے کرتا ہے کہ سب دھنگ ہیں۔۔۔ اصحابِ جنت کا جنت میں دخول جاری ہے۔۔ اصحاب النار میں سے ہلکے گناہوں والے بھی خدا تعالیٰ کے رحم و کرم سے جنت کا ہی رُخ کر رہے ہیں ۔۔ سُبحان اللہ۔۔۔۔اتنے میں ایک نوجوان لڑکی سامنے آتی ہے اور رب غفور سے اجازت لے کر گویا ہوتی ہے: ” خدایا ! خدایا! تو اپنے عدل و انصاف کے فیصلے جاری رکھ۔۔۔ صرف میری چھوٹی سی عرضِ داشت سن لے۔۔ جب پاکستان بن رہا تھا تو میں اپنے بچے ، شوہر اور والد کے ساتھ لاہور کی سمت چل پڑی۔۔ راستے میں میرے باپ کو ظالموں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔۔ لیکن آزادی کا جذبہ اس قدر تھا کہ باپ کی محبت مجھے نہ روک پائی۔۔۔ ہندوؤں کے ایک اور گروہ نے میرے شوہر کے پاؤں الگ الگ گاڑیوں کے ساتھ باندھ کر چیر ڈالا۔۔ خدایا! مجھے مجازی خدا کی محبت بھی نہ روک پائی اور میں اپنے بچے کو لے کر بھاگ کھڑی ہوئی۔۔۔“
پھر آنسو پونچھتے ہوئے بات جاری رکھی ” خدائے ذوالجلال! چند ہندو شر پسندوں نے جھپٹے سے میرابیٹا مجھ سے چھین لیا اور اسکی گردن مروڑ کر آسمان کی طرف اُچھال دیا۔۔ اور نیچے نیزے رکھ دیئے۔۔ جب میرا لختِ جگر نیزوں میں پرویا جا رہا تھا تو اسکے منہ سے ”اماں اماں“ کی آواز نکل رہی تھی۔۔۔ لختِ جگر کی تڑپ نے مامتا کو جگایا لیکن آزادی اور پاکستان کی محبت نے اسے دبا دیا۔۔۔۔ میں بھوکی پیاسی۔۔۔ بھاگتے۔۔۔ گرتے سنبھلتے لاہور پہنچی۔۔۔ تا کہ میری آئندہ نسلیں آزا د ریاست میں خوش و خرم رہیں۔۔۔۔“ پھر اس لڑکی نے ہمارے سمت اشارہ کرتے ہوئے۔۔۔روتے ہوئے۔۔ چلاتے ہوئے کہا ” یہ ہے وہ نسل ۔۔ جس کے لئے میں نے وہ سب کیا۔۔ خدایا! ذرا ان سے پوچھیئے کہ آیا انہوں نے اپنا حق ادا کیا ؟“”خدایا! نورین کو ہندوؤں نے بازارِ حُسن کی زینت بنایا۔۔ وہ کسی محمد بن قاسم کو جانتی تھی کہ وہ ایک بہن کی خاطر حجاز سے سندھ میں آیا تھا۔۔ نورین کسی محمد بن قاسم کے انتظار میں درجنوں سکھ اور ہندو بچوں کو جنم دے چکی۔۔۔
خداوندِ جبار و قہار! ذرا ان سے پوچھیئے کہ یہ نورین کے لئے ابنِ قاسم بنے؟ یا اپنی بہن کو انہی دھکتے انگاروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا؟؟اس عالم میں بھی سب خداوند ذوالجلال کے رحم کے منتظر تھے۔۔۔ کسی کے چہرے پہ ندامت نہ پاکر میں شرم سے نظریں جھکائے وہیں گھڑ جانا چاہ رہا تھا۔۔۔۔ کہ نہ یہاں کسی کا احساس کیا نہ خدمتِ الٰہی میں ندامت۔۔۔۔۔میں نے مٹھیاں اتنی کس کے بند کیں کہ اب انکا کھلنا دشوار۔۔۔ دانت اتنے کس کے دبا رکھے تھے کہ جبڑے ٹوٹنے کو تھے۔۔۔ ٹھوڑی کو مزید جھکا کر سینے میں گھُسانا چاہ رہا تھا۔۔۔ پاؤں کی انگلیاں نیچے کو موڑ کر توڑ دینا چاہ رہا تھا۔۔ آنکھیں اس قدر شدت سے بند کر رہا تھا کہ کاش بینائی سلب ہو جائے۔۔ اس لڑکی کا ہماری طرف اشارہ کرنا مجھے اتنی شرمندگی دے گیا کہ میں خود کو کسی قیمت پر جنت کا حقدار نہیں سمجھ رہا تھا۔۔۔۔ میں خُدا کی اپنی طرف نظر پڑنے سے پہلے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے واصلِ جہنم ہو جانا چاہ رہا تھا۔۔۔۔“
تحریر: عاقب شفیق