تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
گڑھی خدابخش میں بینظیر شہید کی برسی پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف زرداری اور دیگر اکابرین نے بہت سی باتیں کیں،بی بی شہید کے کارنامے گنوائے ،اُنکی سیاسی رفعتوںسے جیالوںکو روشناس کرایا لیکن اگرکسی نے ذکرنہیں کیا تو اِس بات کاکہ بی بی کے قاتل ابھی تک زندہ کیوںہیں ۔جب بھی جیالے یہ نعرہ لگاتے ہیں ”بی بی ہم شرمندہ ہیں ،تیرے قاتل زندہ ہیں”توپیپلزپارٹی سے کوئی تعلق نہ رکھنے کے باوجود خودہمیں بھی شرمندگی محسوس ہونے لگتی ہے کیونکہ بی بی کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی نے ہی پانچ سال تک حکومت کی لیکن قاتلوںکا سراغ لگانے میںنہ صرف ناکام رہی بلکہ سچ تو یہی ہے کہ ایسی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہی نہیں گئی۔البتہ جب بیت اللہ محسودڈرون حملے میں ماراگیا تو اُس وقت کے وزیرِاعظم یوسف رضاگیلانی نے بڑے فخرسے کہہ دیا ”ہم نے بی بی شہیدکے قتل کا بدلہ لے لیا”۔جبکہ بی بی کی شہادت کے فوراََبعد بیت اللہ محسودیہ اعلان کر چکاتھاکہ ”ہم عورتوں پرحملے نہیںکیا کرتے۔
اُس وقت زرداری صاحب نے بھی دوٹوک الفاظ میں کہاکہ بی بی کے قتل میں طالبان ملوث نہیں ۔اُنہوںنے توقاف لیگ کومودرِالزام ٹھہراتے ہوئے ”قاتل لیگ”قراردیا ۔یہی قاتل لیگ بعدمیں ”قابل لیگ”قرارپائی اورقاف لیگ کے وزرا ء کی فوج ظفرموج کے علاوہ چودھری پرویزالٰہی پیپلزپارٹی کے ڈپٹی وزیرِاعظم بھی قرار پائے۔ویسے یہ اقتدارکا نشہ بھی کتنا عجیب ہے کہ زرداری صاحب نے اقتداربچانے کی خاطربی بی شہیدکے قاتلوںکو گلے لگالیا اور چودھری جو ساری زندگی چودھری ظہورالٰہی شہید کے قتل کا الزام پیپلزپارٹی پر دھرتے رہے ،وہ حصولِ اقتدارکی خاطراُسی پیپلزپارٹی کے پہلومیں جاکھڑے ہوئے۔
پیپلزپارٹی نے پرویزمشرف پربھی بی بی کے قتل کاالزام لگایالیکن پھر اسی پرویزمشرف کو پورے پروٹوکول اورگارڈآف آنر کے ساتھ ایوانِ صدرسے رخصت بھی کیا۔جب تک پیپلزپارٹی کا دَورِحکومت رہا ”بِلّا”پاکستان میں آزادہی پھرتارہا اور سپریم کورٹ کے فُل بنچ کے فیصلے کے باوجودپیپلزپارٹی نے اُس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت تک نہ کی لیکن نوازلیگ کی حکومت کے آتے ہی پتہ نہیںیکایک کیا ”کایا کلپ”ہوئی کہ جنابِ آصف زرداری کا جذبۂ انتقام جاگ اُٹھااور اُن کی تقریروں میں”بِلّا”میاؤںمیاؤں کرنے لگا۔میاںصاحب کو توزرداری صاحب باربار تلقین کرتے ہیں کہ ”بِلّے کو جانے نہ دینا”لیکن جب بِلّا اُن کے قبضۂ قدرت میںتھا تب وہ کہاںسوئے رہے ،تب اُن کے دِل میںبی بی شہیدکے قتل کے دردنے انگڑائی کیوںنہ لی ؟۔یہ یقین کہ وہ نوازلیگ کے کندھے پربندوق رکھ کرچلانا چاہتے ہیں لیکن نوازلیگ نے توتمام تر خدشات کے باوجود اپنا ”کندھا”پہلے ہی حاضر کررکھاہے۔میاںصاحب کوبزدلی کا طعنہ دینے والے شایداُن کا ماضی فراموش کرچکے ہیں۔
یاددہانی کے لیے عرض ہے کہ میاںنوازشریف صاحب نے اپنے کسی بھی دورِاقتدارمیں ڈکٹیشن نہیںلی ۔1993ء میںصدرغلام اسحاق خاںسے ٹکرائے اورقوم سے خطاب کرتے ہوئے یہاںتک کہہ دیاکہ ”ڈکٹیشن نہیںلوں گا،اسمبلی نہیںتوڑوںگا اورنہ ہی استعفیٰ دوں گا”۔اسی تقریرکی بناپر اُنہیں وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونے پڑے۔1998ء میں امریکی صدربِل کلنٹن کے شدیددباؤ اوردھمکیوںکے باوجودایک دونہیں پورے چھ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کوعالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بنادیا۔ پرویزمشرف نے کارگل کی جنگ میاںصاحب کی مرضی اورایماء کے بغیر شروع کی جس پرمیاںصاحب نے 1999ء میںجنرل وحیدالدین بٹ کوچیف آف آرمی سٹاف بنادیالیکن مشرف اوراُسکے کچھ ساتھی جرنیلوںنے حکومت کا تختہ الٹ کرمیاںصاحب کو پورے خاندان سمیت جَلاوطن کردیا۔میاںصاحب کے ماضی کومدِنظر رکھتے ہوئے زرداری صاحب خاطرجمع رکھیں،میاںصاحب مشرف کیس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیںہٹیںگے البتہ اگر عدالتیںمشرف کے حق میں فیصلہ کردیں توالگ بات ہے ۔ویسے تین رُکنی تحقیقاتی کمیشن نے جوفیصلہ سنایاہے اُس سے تو ہرچشمِ بینا کو یہی نظرآنے لگاہے کہ ”بِلّا”آزاد ہی پھرتارہے گا ۔جنابِ آصف زرداری نے فرمایا ”میںدیکھ رہاہوں کہ ”بِلّا”ضمانت پر گھر میں بیٹھاہے جس کے ایک طرف فوج چل رہی ہے اور ایک طرف وہ سیاست کررہاہے ۔بلّے کو سیاست کرنی ہے توفوج سے ہٹ جائے اور اگرفوج کو اُس سے سیاست کروانی ہے توبتادے کہ وہ اُن کا نمائندہ ہے تاکہ ہمیںپتہ چل جائے ،ہم اُن کا مقابلہ کریںگے”۔ عرض ہے کہ افواجِ پاکستان نے اپنے قول ،فعل یا عمل سے کبھی ثابت نہیںکیاکہ وہ پرویزمشرف صاحب کی پشت پرہے۔
اگرایسا ہوتا توآمر عدالتوںمیں دھکے کھا رہاہوتانہ بیماری کا بہانہ بناکر اے ایف آئی سی راولپنڈی میںپناہ ڈھونڈتا۔رہی مقابلہ کرنے کی بات توعرض ہے کہ دودوست ایک جنگل میںجا رہے تھے ۔ایک نے دوسرے سے پوچھا ”اگراچانک سامنے سے شیر آجائے توتم کیا کروگے ؟”۔دوسرے نے جواب دیا ”جوکچھ کرے گا شیرہی کرے گا ،میںنے کیا کرناہے ”۔ اگر فوج نے پرویزمشرف کواپناسیاسی نمائندہ بنانے کی ٹھان لی تو پھرجو کچھ کرے گی ،فوج ہی کرے گی اور کامیاب بھی رہے گی کیونکہ آمروںکو تو دَس بار وردی میں منتخب کروانے والے سیاستدان ایک ڈھونڈوہزار ملتے ہیں۔ آمریت کے خلاف بڑھکیںلگانے والے یاتوچوہوںکی طرح اپنے بلوںمیں گھُس جاتے ہیں یا پھر آمر کے پہلو میں۔انگلیوں پہ گنے چند صحافی اورسیاستدان ہی ایسے تھے جو آمریتوںکے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوئے اوربدترین تشددکاشکار بھی ہوئے ۔یہ تسلیم کیے بناکوئی چارانہیںکہ بی بی جمہوریت کے حُسن کے ”لشکارے”ابھی اُس مقام تک نہیںپہنچے کہ سیاستدانوںکی جھولی میںبھی کچھ آن گرے ۔بڑھکیں جتنی جی چاہے لگاکرخوش ہولیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہماری”نرم ونازک”جمہوریت آج بھی اسٹیبلشمنٹ کی مرہونِ منت ہے۔ابھی کل ہی کی بات ہے جب الیکٹرانک میڈیاپر ”امپائر”کی انگلی اُٹھنے کا شورتھا اور کچھ”میڈیائی بزرجمہر” توتاریخیں تک دے رہے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ فی الحال اِس موڈمیں نظرنہیںآتی۔
ہمیں یقین ہے کہ زرداری صاحب نے مقابلہ کرنے کی بات اپنے جیالوں کوخوش کرنے کے لیے کی ہے کیونکہ وہ تواتنے صلح جُو ہیں کہ جنرل اشفاق پرویزکیانی کے ماتھے کی ایک شکن دیکھ کرہی اُنہوںنے ریٹائرمنٹ سے چھ ماہ پہلے ہی جنرل صاحب کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کردی ۔ بلاول زرداری نے الطاف بھائی کے بارے میںسخت الفاظ کیاکہے کہ زرداری صاحب نے اُسے سیاست سے ہی” آؤٹ”کرتے ہوئے یہاںتک کہہ دیا”پہلے بلاول نے کراچی میں تقریرکرتے ہوئے 100 لوگوںکو ناراض کیا ،اگر لاہورآجاتا تو پتہ نہیںاور کتنے ناراض ہوتے۔اِس لیے مقابلہ کرنے کی بات تو زرداری صاحب چھوڑہی دیں کیونکہ کوئی بھی یقین نہیںکرے گا ۔اُدھربلاول زرداری کہتے ہیںکہ ”آصف زرداری کمان ہیںاور میںتیرہوں ”۔ہم نوجوان بلاول کی اِس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں لیکن اِس فرق کے ساتھ کہ وہ ”کمان سے نکلاہوا تیر”ہیں جو کسی کے بَس میںبھی نہیںہوتا۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر