تحریر : علی عمران شاہین
بھارت نے شکر گڑھ سیکٹر میں پاکستانی رینجرز کے جوانوں کو فلیگ میٹنگ کے بہانے بلا کر اچانک فائرنگ شروع کر دی اور دو پاکستانی جوان شہید کر دیئے۔جب پاکستانی فوج اپنے ان زخمی جوانوں کو اٹھانے گئی تو ایمبولینس کو بھی بھارتی فوج نے اس وقت آگے نہ بڑھنے دیا جب تک کہ وہ جوان جام شہادت نوش نہیں کر گئے۔بھارت نے اس روز کنٹرول لائن پر بھی ہمارے دو جوان شہید کر دیئے اور ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ دنیا کے کسی اخلاقی یا قانونی ضابطے کا پابند نہیں۔ایسی کمینگی تو دنیا میں بڑے سے بڑا دشمن حالت میں جنگ میں بھی نہیں کرتا جس جس کا ارتکاب بھارت کر رہا ہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں۔16دسمبر 2014ء کو جب پاکستانی قوم یوم سقوط ڈھاکہ کی یاد میں سوگوار تھی، پشاور میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردانہ حملہ کر کے ڈیڑھ سو لوگوں کو شہید کر دیا گیا جن میں بھاری اکثریت معصوم بچوں کی تھی۔ اس دن کے بعد پاکستان نے ہر سطح پر دہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر مختلف اقدامات کا فیصلہ اور پھر اعلان کیا۔
حملے کے اگلے ہی روز پشاور میں قومی کانفرنس ہوئی جس میں تمام سیاسی پارٹیوں نے حکومت اور فوج پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے دفاع کیلئے حکومت اور فوج کے ہر اقدام کی غیرمشروط مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ اس کے بعدفوج نے بھی مختلف اقدامات کئے۔ جنرل راحیل شریف فوراً حملے کے مرکز افغانستان پہنچے۔ وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا۔ پھر ملک میں جاری اس دہشت گردی کے خلاف مختلف سطح پر روک تھام کمیٹیاں تشکیل دیں اور پھر ان کمیٹیوں کی نگرانی بھی خود شروع کی۔ وزیراعظم نے اپنے قوم سے خطاب میں کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں وہ خود قیادت کریں گے۔ پشاور میں ہونے والے دہشت گردی کے اس بدترین واقعہ کی ہر طبقہ نے ہر سطح پر مذمت کی جو ضروری تھی اور پھر اس کے خلاف حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا بھی یقین دلایا۔ یہ سب اپنی جگہ قابل تحسین ہے مگر دوسری طرف سرحد کے اس پار بیٹھا ہمارا ازلی دشمن بھارت ہمارے اس گہرے زخم سے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کی کوششوں میں مصروف ہے۔ سانحہ پشاور کے حوالے سے بھارتی میڈیا اور بھارتی حکام دن رات پاکستان کے خلاف مختلف طرح کا زہریلا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔
حیران کن طور پر بھارت اس واقعہ سے پاکستان کو دنیا بھر میں دہشت گردی کا مرکز قرار دلوانے کیلئے اپنے تئیں پورا زور لگا رہاہے۔ بھارت کی ساری توجہ اس نکتے پر مرکوز ہے کہ وہ کسی طرح اس سانحے سے فائدہ اٹھا کر تحریک آزادی کشمیر کا نام لینے اور اس کی حمایت کرنے والے سبھی لوگوں کو دہشت گرد قرار دلوا کر ان پر پابندیاں عائد کروا دے۔ یہ بھارت ہی تھا جس نے بغیر کسی ثبوت کے چھ سال پہلے ممبئی حملوں کے بعد اقوام متحدہ کی طرف رجوع کر کے جماعة الدعوة پر پابندیاں عائد کروانے کیلئے زور ڈالا تھا۔ اقوام متحدہ نے جو اول دن سے مسلمانوں کو دبانے اور نقصان پہنچانے اور یہودیوں کے تحفظ کیلئے بنی ہے، فوری طور پر ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا اور اپنے طے شدہ ضابطے کو روندتے ہوئے تمام بھارتی مطالبات تسلیم کر لئے تھے۔ پھر اسی بنیاد پر حافظ محمد سعید اور ان کے 5اہم ترین ساتھی نظربند ہوئے۔ اس کے بعد چار و ناچار یہ سبھی لوگ پاکستانی اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہوئے۔ انہوں نے اپنی بے گناہی ثابت کی اور اس بات کا مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کے ثبوت دیئے جائیں۔ اب یہ ثبوت نہ اقوام متحدہ کے پاس تھے اور نہ بھارت کے پاس۔ یہ تو ان طاقتوں کا باہمی گٹھ جوڑ اور اسلام و پاکستان کے خلاف مشترکہ اور متحدہ سازشوں کا شاخسانہ تھا جو بالآخرہمیشہ کی طرح ٹائیں ٹائیں فش ہوا۔ جب کہیں سے کوئی ثبوت جماعة الدعوة اور اس کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید کے خلاف نہ سامنے آیا تو پاکستانی عدالتوں بشمول سپریم کورٹ نے انہیں بری کر دیا اور قرار دیا کہ انہیں اور ان کی جماعت کو کام کرنے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی کھلی اجازت ہے۔
بھارت نے گزشتہ 6سال میں ممبئی حملوں کے حوالے سے پاکستان کو جتنے ثبوت دیئے انہیں پاکستانی عدالتوں ہی نہیں بلکہ اب خود بھارت کے ساتھ ساتھ ساری دنیا نے ناکافی ہی نہیں بلکہ بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اگر ان نام نہاد ثبوتوں میں کوئی ٹھوس دلیل یا شہادت ہوتی تو بھارت ہی نہیں بلکہ اس کے جواب میں امریکہ اور یورپی ممالک اور اقوام متحدہ اس کا خوب چرچا کرتے لیکن یہ نہ ہو سکا۔ سو اب 6سال بعد جب راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اپنے معزز شہری ذکی الرحمن لکھوی کو ثبوت نہ پا کر باعزت ضمانت پر رہا کرنے کا حکم سنایا تو بھارت میں بھونچال آ گیا۔ بھارت نے پروپیگنڈہ کی تمام حدیں پار کیں اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی ان کی نظر بندی ختم کرنے کا حکم جاری کیا کہ یہ غیرقانونی تھی۔ اس فیصلے پر بھی بھارت نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا نیا طوفان اٹھایا۔ امریکہ سے بھی دبائو ڈالوانا شروع کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستانی قانون کو بھی نہیں مانتے اور ہمارے اندرونی معاملات میں بھی مداخلت کر رہے ہیں، پھر اسی دن سے بھارت نے پاکستان پر اپنا بے پناہ دبائو بڑھانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرنا شروع کر رکھا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں اس کے خلاف کوئی بات کرنے والا نہ ہو۔ بھارت کی کشمیر کے راستے پاکستان کے خلاف آبی دہشت گردی، افغانستان کے راستے زمینی دہشت گردی، قتل و غارت گری، زرعی جارحیت، معاشی واردات اور ثقافتی یلغار کا کوئی نام بھی لینے والا نہ ہو لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔
بھارت اب ممبئی حملوں کے متعلق اپنے جھوٹے پروپیگنڈے میں بری طرح ناکام ہو کر پشاور کے سکول میں قتل عام کی آڑ لے کر ایک طرف ہمدردی جتانے کی کوشش کرتا ہے تو دوسری طرف جماعة الدعوة اور اس کے امیر کے خلاف دن رات پروپیگنڈہ کر کے ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہے کہ حکومت پاکستان ان کے خلاف ویسی ہی سخت کارروائی کرے جیسا کہ وہ (بھارت) چاہتا ہے۔ ڈھٹائی کی انتہا دیکھئے کہ بھارت نے اس عرصے میں جب کہ پاکستان سانحہ پشاور کے زخموں سے چور چور ہے، اپنی ہٹ دھرمی کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے یہ تک کھلے عام کہنا شروع کر دیا ہے کہ ان کا ایک سب سے مطلوب شخص دائود ابراہیم کراچی میں چھپا ہوا ہے اور بھارتی حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ انہیں اس کے باقاعدہ ثبوت مل چکے ہیں۔ بھارت دراصل اس کی آڑ میں یہ چاہتا ہے کہ جس طرح امریکہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے کرتا ہے اور جس طرح اس نے ایبٹ آباد میں حملہ کر دیا تھا، وہ بھی ویسے ہی پاکستان میں حملے کر کے ان اہداف کو نشانہ بنائے جنہیں وہ خطرے کی علامت سمجھتا ہے۔ بھارت اس کی آڑ میں عالمی سطح پر بھی پاکستان پر دبائو ڈلوانے کیلئے متحرک ہے۔ لیکن بھارتی بھدرپرشوں کو یہاں ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہئے جو اسے پاکستان نے 6سال پہلے ممبئی حملوں کے بعد بتائی تھی کہ اگر اس نے پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کی تو اس کا حشر بہت برا ہو گا اور پھر وسیع ایٹمی جنگ کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ سو حاصل کلام یہی ہے کہ جہاں ملک بھر میں دہشت گردی کو روکنے کیلئے وسیع پیمانے پر اقدامات لائق تحسین ہیں۔
وہیں وطن عزیز کے ازلی و بدترین دشمن بھارت کا منہ توڑنے اور اس کی ”بولتی” بند کرنا بھی اسی قدر ضروری ہے جو ہماری اس مجبوری سے فائدہ اٹھا کر ہمیں الجھانا اور ملک میں ہمیں باہم لڑانا چاہتا ہے۔ ہمیں اپنے معزز شہریوں اور ملک کے محافظ عامة الناس کا سب سے بڑھ کر احترام کرنا ہے جو پشاور جیسی دہشت گردی کے واقعات میں ایک دفاعی دیوار بن کر کھڑے ہوئے ہیں اور بھارت ایسے دشمن کو بے نقاب کر کے اس سے اپنا ہر حق وصول بھی کرنا ہے جو ہماری تکلیف اور مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی تاک میں ہے۔ بھارت سے جب تک ہم اپنے سارے غصب کردہ حقوق لے نہیں لیتے اور اپنے تمام بنیادی جھگڑے حل نہیں کر لیتے، اس کے ساتھ امن کے ساتھ رہنے یا اچھے تعلقات کا خیال تک دل سے نکال دینا چاہئے۔
تحریر : علی عمران شاہین