تحریر: علی عمران شاہین
”بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے اور کشمیر اس کی نسبت ایک چھوٹی سی وادی ہے۔ اعدادوشمار اور جنگی کُلیوں کے مطابق کشمیری اپنی جنگ کبھی نہیں جیت سکتے۔ ظاہر ہے کہ ایک نہتا شخص جس کی پیٹھ پر 70 سال کے ظلم و جور کا بورا بھی لدا ہو، کس طرح دنیا کی ایک عظیم ترین، جدید ہتھیاروں سے لیس فوج سے لڑ سکتا ہے؟ مگر مسئلہ یہ ہے کہ نہ کشمیر ایک عام خطہ ہے اور نہ ہی کشمیری ایک عام قوم، بھارت سرکار کی صرف یہ سوچ لے کہ اس وقت جب پورا ہندوستان جنرل ڈائر (13اپریل 1919ء کو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں ہندوستانیوں کے ہجوم پر فائرنگ کا حکم دے کر لگ بھگ ڈیڑھ ہزار لوگوں کو قتل کرنے والا برطانوی افسر) کے حکم پر سر جھکائے گھٹنوں اور کہنیوں کے بل ناک زمین سے چپکائے رینگ رہا تھا، کشمیری تب بھی اپنا سر بلند کر کے ہی صاحب لوگوں کا بوجھ ڈھو رہا تھا۔ آج جب آپ کے پاس انگریز کا چھوڑا ہوا نو آبادیاتی نظام، سوچ اور فوج ہے تب بھی، کشمیریوں کے کندھوں پر ان کی جوان اولادوں کے جنازے تو ہیں لیکن ان کے سر بلند ہیں۔ وہ آپ کا لادا ہوا بوجھ تو ڈھو لیں گے مگر سر نہیں جھکائیں گے۔ غور کیجئے، سر کس کا جھکا ہوا ہے؟”
بی بی سی اردو نے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کی موجودہ گرم خیز مہم کے آغاز کے بعد اس تحریک اور کشمیری قوم کے حوالے سے یوں تبصرہ کیا تو کئی لوگوں کو اس سے کشمیری قوم کی جرأت و بے باکی کا علم ہوا۔ یہ قوم وہی قوم ہے جو سر کٹانا تو جانتی ہے لیکن سر جھکانا نہیں جانتی۔ کسی کو یقین نہ آئے تو وہ اس ماں کو دیکھ لے جو برہان وانی کی شہادت کے بعد سے جاری تحریک آزادی کے ایک مظاہرے میں شریک ہے۔ یہ ماں ڈیڑھ سالہ بچہ اٹھائے ہر طرح کے کیل و کانٹے سے لیس بھارتی فوج کے سامنے سینہ سپر کھڑی ہے اور کہہ رہی ہے، ہم جہاد کے لئے آئے ہیں۔ ہم جہاد کریں گے۔ ہم سب شہید ہو جائیں گے، ہم بھی قربان ہو جائیں گے۔ ہم اپنے بیٹے بھی قربان کر دیں گے۔ ہم بھی قربان، ہمارا سب کچھ قربان۔ یہ الفاظ کشمیری قوم کی زبان سے دنیا ایک زمانے سے سن تورہی ہے۔ لیکن پھر ساتھ ہی گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے۔
جی ہاں! یہ اس قوم کی زبان سے ادا شدہ الفاظ ہیں جسے تاریخ عالم میںایک پرامن ترین قوم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ آج اس قوم کو سرنڈر کروانے کے لئے جہاں بھارت اپنے اسلحہ خانوں سے تمام جنگی سازوسامان، اپنے دماغوں سے تمام شیطانی چالیں، حربے اور ساری دنیا کا اتحاد بنا کر اسے نیچا دکھانے کے جتن کر رہا ہے لیکن وہ پھر بھی نامراد ہے، اور کیوں نہ ہو۔یہ دیکھئے، یہ اسی مقبوضہ کشمیر کی ایک اور خاتون ہے جو آج 107دن سے سخت ترین محاصرے میں ہے ،جہاں تاریخ انسانی کا ایک طویل ترین کرفیو اور ایک طویل ترین ہڑتال جاری ہے، جہاں چند روز میں آٹھ ہزار بچے راتوں کو چھاپے مار کر اٹھا کر عقوبت خانوں میں پھینک دیئے گئے،جہاں چند روز میں ہزاروں گھروں پر تباہی مچا دی گئی، جو سامنے نظر آیا، سب تاراج کر دیا گیا۔جہاں کی عفت مآب مائوں بہنوں تک کو گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے، ان کے گھروں میں گھس کر آج کپڑے تک پھاڑے اور انہیں ماراپیٹاجاتا ہے۔ یہیں کی باسی اور پہاڑوں کو لرزا دینے والی ہمت رکھنے والی یہ خاتون اپنے شب و روز کی کیفیات یوں بیان کرتی ہے۔
”میرا شوہر میرے لئے باغ سے دل کی شکل کا ایک پتھر لایا، مجھے خوش کرنے کے لئے یہ اس وقت کی بات ہے جب ہم سب پر کرفیو آٹھ دن سے نافذ تھا اور درجنوں کشمیری شہید اور سینکڑوں زخمی کر دیئے گئے تھے۔ مجھے یہ بات موزوں لگی کہ ہمارے پتھر محبت کی نشانی بن گئے تھے، چاہے یہ کسی کی محبت کی ترجمانی کر رہے ہوں یا اس جذبے کی جو گزشتہ 70سال سے ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔ ہمارا سب سے بڑا پتھر ہندوستان کے لئے یہی ہے کہ ہم امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے۔ وہ ہم پر کتنے ہی ظلم کیوں نہ کرے۔ یہی امید ہے جو ہمارے لوگوں کو بار بار سڑک پر ایک پرامن جلوس کی صورت لاتی ہے۔ ان کے نعروں کی بلندی میں ان کی ثابت قدمی میں امید ہی کا تو شرارہ ہوتا ہے۔ کبھی یہ امید ایک چھروں سے زخمی بچے کی ماں کی لوری میں ڈھل جاتی ہے اور کبھی اس باپ کی بند مٹھی میں جو اپنے جوان بیٹے کی قبر پر مٹی ڈال رہا ہوتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ کہ کسی اور باپ کو ایسا نہ کرنا پڑے۔ کبھی اس امید نے آنسو گیس سے بھرے تھیٹر میں سرجن کے ہاتھوں کو لرزش سے بچایا اور کبھی اس نے اس عورت کو ہمت بخشی جو پرسوں سے اپنے گمشدہ شوہر کو تلاش کر رہی ہے۔ ہماری امید کے کئی رنگ ہیں جو ظلم اور جبر کے ماحول میں ہمیں جلا بخشے ہیں۔ انہی رنگوں کی قوس قزح سے ابھی تک امید بہار زندہ ہے۔”
70سال سے جاری جدوجہد آزادی کے ان الفاظ سے یاد آیا کہ ہی کشمیری قوم ہر سال 27اکتوبر کو دنیا بھر میں یوم سیاہ اور 6جولائی کو یو م شہدائے جموں مناتی ہے ۔ایک روز بھارت نے اپنی افواج سرینگر میں اتار کر ان کی آرزوئوں کا گلہ گھونٹا اور ان کے ارمانوں کا خون کیا تھا توچند روز بعد لاکھوں کشمیریوں کو پاکستان لے جانے کا جھانسہ دے پرقتل کر ڈالا تھا۔ تقسیم ہند کے فیصلے پر کشمیری بے انتہا خوش تھے۔ اسی لئے تو انہوں نے قائداعظم کے دورئہ سرینگر کے موقع پر انہیں یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ ہر صورت پاکستان میں شامل ہوں گے۔ انہی تمنائوں کے سائے میں 19جولائی 1947ء کو مسلم کانفرنس نے چودھری غلام عباس کی پیش کردہ قرارداد پر الحاق پاکستان کی منظوری دی۔ 15اگست کے روز جب ہندوستان کی تقسیم کا باقاعدہ اعلان ہوا تو کشمیریوں نے ہر جگہ اور ہر مقام پرپے پناہ خوشی کا اظہار کیا۔
یہی وہ دن تھے جب کشمیریوں نے پہلی بار ”کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعرے بلند کئے تھے۔ یہی صورتحال دیکھ کر بھارتی نیتا حیران و پریشان اور لرز کر رہ گئے تھے۔پھر 24اکتوبر 1947ء کو سردار ابراہیم کی صدارت میں کشمیر کی پہلی آزاد ریاست قائم ہوئی تو اعلان ہوا کہ مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت ساری ریاست سے برطرف کر کے نئی حکومت کو انتظام و انصرام سونپا جا رہا ہے۔ 25اکتوبر کو مسلم کانفرنس نے سرینگر میں عظیم الشان جلوس نکالا جو پاکستان سے الحاق کے نعرے لگاتا تاریخی جامع مسجد کے پاس اختتام پذیر ہوا۔ بھارت اس ساری صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوا تھا تو ساتھ ہی ساتھ وہ کشمیری مجاہدین اور قبائلی لشکر بھی سرینگر کی جانب بڑھتا دیکھ رہا تھا کہ ہری سنگھ نے 26اکتوبر کو سرینگر سے بھاگ کر دلی پناہ لی۔یوںبھارت نے 27 اکتوبر کو یہ کہہ کر سرینگر میں فوج اتار دی کہ اسے مہاراجہ کشمیرنے اس کی دعوت دی ہے اور فریقین میں الحاق کی دستاویز بھی طے ہو چکی ہے۔
طرفہ تماشا یہ بھی ہے کہ 70 بیتے، بھارت آج تک الحاق کشمیر کی وہ دستاویز دنیا کو دکھا نہیں سکا کہ یہ سارا دعویٰ تو ہوا میں تھا۔ بھارتی فوجیں جب سرینگر اتریں تو گورنر جنرل آف پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے تمام تر نامساعد حالات اور ہر طرح کی مشکلات میں گھرے ہونے کے باوجود اپنی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کو حکم دیا کہ وہ بھارت کے خلاف مقابلے میں فوجیں کشمیر میں داخل کرکے کشمیر بزور شمشیر چھین لیں۔ شومئی قسمت کہ بھارت کے انگریز جنرل نے تو جواہر لعل نہرو کا حکم مان لیا لیکن پاکستان کے جنرل نے پس و پیش اور حیلے بہانے کر کے فوج داخل نہ کی۔
یوںبھارت نے پہلے اسلامیان جموںکا بدترین قتل عام کر کے چار لاکھ سے زائد لوگ شہید کئے اور اس خطے میں مسلم اکثریت کو کمزور کیا ۔اس وقت سے جاری یہ سلسلہ آگے بڑھتے ہوئے یہاں تک پہنچا ہے کہ گزشتہ 70سال سے کشمیری شہداء کی تعداد 6لاکھ تک جا پہنچی ہے لیکن کشمیری ہیں کہ سروں کی فصل روز کٹواتے اور بھارت کو رسوا کرتے ہی جاتے ہیں۔انصاف سے عاری دنیا دیکھ لے اور بار بار دیکھ لے کہ کشمیریوں کے سر کبھی جھکنے والے نہیں اور انہیں بھی آنکھیں جھکا کر ہی جینا ہو گا۔ہاں!بھارت بھی یہ فیصلہ ضرور کر لے کہ70سال سے ناقابل شکست کشمیریوں کے مقابل اس کے بازوئوں میں اور کتنا دم ہے۔