تحریر: علی عمران شاہین
ماہ فروری کے گزشتہ چند روز بھارت کی پاکستان کے خلاف دشمنی کو نمایاں اور عیاں کرنے کے حوالے سے بہت اہم رہے۔ بھارتی کوسٹ گارڈ کے ڈی آئی جی نے 17 فروری کو اعتراف کیا کہ 31 دسمبر 2014ء کی رات بحیرئہ عرب میں جس کشتی کو تباہ کیا گیا تھا، اسے نشانہ بنانے کا حکم میں نے خود دیا تھا اور اس کشتی میں پاکستانی ماہی گیر سوار تھے۔ بھارتی کوسٹ گارڈ کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل بی کے لولشالی (جو شمال مغربی ریجن کے چیف آف سٹاف بھی ہیں) نے یہ حکم دیا تھا کہ اس کشتی کو اڑا دو۔ یہ اعتراف بھارتی میڈیا میں شائع ہوا تو پاکستان کی جانب سے اس پر ردعمل تو سامنے آیا لیکن وہ اتنا زوردار نہیں تھا جو اس مذموم واقعہ کے بعد ہونا چاہئے تھا۔ بھارت نے کشتی سواروں پر اپنے ملک پر حملے کی کوشش کا الزام عائد کر کے بے گناہ ماہی گیروں کی کشتی تباہ کر کے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا لیکن اسے اس پر کوئی شرمندگی نہیں۔ بھارت میں اعتراف کرنے پر الٹا اس آفیسر کا کورٹ مارشل شروع کیا جا رہا ہے۔ ہماری کشتی کی تباہی ایک ایسی کھلی دہشت گردی تھی کہ جس کی جس قدر اور جس انداز میں مذمت کی جائے کم ہے۔ ہمارے نہتے چار شہری بھارتی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے لیکن ہمارا ردعمل کمزور ہی رہا۔
اگلے روز یعنی 18فروری کو سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کے 8سال مکمل ہوئے۔ اس موقع پر پاکستانی دفتر خارجہ نے مریل سا بیان داغا کہ بھارت اس واقعہ کے ملزموں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے حالانکہ بھارت کو اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ 18فروری 2007ء کو 68پاکستانی زندہ جلا کر بیشتر شہداء کی راکھ کو بھارتی شہر پانی پت میں ہی دفن کردیا گیا۔ بعد میں کتنی بار ثابت ہوا کہ یہ دہشت گردی بھارتی ہندو تنظیموں نے بپا کی تھی۔ ممتاز بھارتی ہندو رہنما سوامی اسیمانند کا نام آیا۔ حاضر سروس کرنل پروہت کا ذکر دلائل کے ساتھ ہوا لیکن مقدمہ کسی پر نہ چلا۔ بھارت نے اس قدر دلفگار سانحہ پر یوں مٹی ڈال رکھی ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ اپنے ایک فوجی کے بدلے چار پاکستانی فوجیوں کو مارنے کا اعلان کرنے والے، ایک گولی کے بدلے گولیوں کی بارش کرنے کے اعلان کرنے والے بھارت کو اس مسئلہ پر آخر کیوں اب تک رعایت اور ڈھیل دی جا رہی ہے؟
سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کو 8 سال گزرنے کے بعد یا تحقیقات میں کسی اہم شخص کا نام آنے کے بعد پاکستان کی جانب سے کوئی بیان آ جاتا ہے ورنہ خاموشی ہی طاری رہتی ہے، آخر کیوں؟ اسی ماہ بھارت نے کنٹرول لائن پر جاری آرپار کی تجارت میں حصہ لینے والے دو پاکستانی ڈرائیوروں کو بھی یہ کہہ کر اپنی قید میں ڈال رکھا ہے کہ وہ اپنے ساتھ سامان تجارت میں منشیات چھپا کر لائے تھے۔ پاکستان نے اس پر احتجاج کیا۔سروس کئی روز معطل رہی پھر بھی جب بھارت نے پاکستان کا مطالبہ تسلیم نہ کیا تو تجارت اور بس سروس خود ہی کھول دی گئی۔ ہمارے دو ڈرائیوروں کے اہل خانہ خون کے آنسو رو رہے ہیں کہ نجانے ان کے پیاروں کے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ اگر ان کی لاشیں بھیج دی گئیں تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ کیا ہم ایک بار بھارت سے کھلی دشمنی کا یہ وار بھی سہ لیں گے؟ بھارت نے گزشتہ سال بھی ایک پاکستانی ڈرائیور کو کئی ہفتے تک یہی الزام عائد کر کے اپنی تحویل میں رکھا تھا۔
گزشتہ ایک ہفتے میں ہی ہمارے وزیر دفاع جناب خواجہ آصف اور وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین نے بھارت کی پاکستان دشمنی کی کھل کر باتیں کی ہیں۔ رانا تنویر حسین کہتے ہیں کہ بھارت کی پاکستان دشمنی کے ثبوت ساری دنیا کو دیں گے۔ یہ ثبوت میڈیا کو دینا بھی ضروری ہے کہ وہ بھی جان سکیں کہ بھارت کیسے کیسے پاکستان کو زک پہنچانے میں مصروف ہے۔ اس نے کیسے اور کتنے دہشت گردانہ مرکز افغانستان میں قائم کر رکھے ہیں۔ وہ بلوچستان اور سندھ میں کیسے شرارتوں میں مصروف ہے۔ وہ کیسے ہماری معیشت پر حملہ آور ہے۔ ہماری زراعت کے بعد کاٹن انڈسٹری کو اس نے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ بھارت کی جانب سے دھاگے کی درآمد سے ہماری کپاس کی فصل اور ٹیکسٹائل کا کیسے حشر نشر ہو رہا ہے۔ اس کا حل بھی ضروری ہے۔ اسی ماہ فروری کی بات ہے کہ بھارت نے ہمارے دریائے چناب پر مزیدنئے زیرتعمیر اپنے چار ڈیموں پر کام روکنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان نے یہ مقدمہ عالمی عدالت لے جانے کا اعلان کیا ہے لیکن وہاں کیا فیصلہ ہو گا؟ بگلیہار اور کشن گنگا ڈیم کے مقدمات اور فیصلے اور نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ حق تو یہ ہے کہ بھارت سے جبری پیار و محبت اور خلوص و وفا کی باتیں چھوڑ کر اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہو گا ،وگرنہ ہم ایٹمی قوت ہو کر بھی اس کے ہاتھوں یوں پریشان ہوتے رہیں گے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب تک بھارت سے اپنا حق لینے کے لئے ”حق چھین کر لیا جاتا ہے” کا فارمولا نہیں اپنایا جاتا، معاملات ایسے ہی رہیں گے۔
اس سب سے قبل پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے کھل کر کہا کہ بھارت کنٹرول لائن پر خطرناک کھیل کھیل رہا ہے جس کا انجام اچھا نہیں ہو گا اور اس کا خمیازہ اسے بھگتنا ہو گا۔ انہوں نے کھل کر دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ وہ افغانستان کے راستے دہشت گردی میں ملوث ہے، بلوچستان میں بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔ جب پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے کھل کر تمام باتیں کہہ دی گئی ہیں تو اب حکومت اور عوام کا فرض بنتا ہے کہ وہ بھارت کا محاسبہ کریں اور اس سے وہی سلوک روا رکھیں جس کا وہ سزا وارہے۔ جب تک ہم بھارت کے ساتھ اس کی زبان میں بات نہیں کریں گے اور اسے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیں گے ،وہ باز نہیں آئے گا۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس سے اس کے سارے پڑوسی ملک سخت تنگ ہیں اور سبھی چاہتے ہیں کہ اس ملک کا وجود ہی مٹ جائے۔ بھارت کو اگر اس خطے میں کوئی ”نتھ” ڈال سکتا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے جس سے وہ لرزتا اور کانپتا ہے۔ پاک فوج کی جانب سے بھارتی دہشت گردی اور پاکستان دشمنی مہم کے پول کھولے جانے کے بعد اب یہ لازم ہے کہ ہم اس کے ساتھ صاف اور واضح الفاظ میں اپنے معاملات طے کریں اور کسی مصلحت کا شکار نہ ہوں۔
چلتے چلتے تاجکستان سے افغانستان کے راستے پاکستان آنے والی گیس کے منصوبے کا تذکرہ بھی ہو جائے، جس میں اب بھارت کو بھی شامل کر کے اس کا نام TAP سےTAPIکر دیا گیا ہے۔ قدرتی گیس ہمارے ملک کی بہت ہی بنیادی ضرورت ہے۔ تاجکستان کے راستے ہمیں سستی گیس مل سکتی ہے تو ہمیں اس منصوبے میں بھارت کو اس وقت تک قطعاً شامل نہیں کرنا چاہئے جب تک وہ ہمارے ساتھ بنیادی مسائل حل کر کے امن کے ساتھ رہنے کی کوئی عملی مشق نہیں کرتا۔ اگر ہم نے اسے بدترین دشمنانہ حال میں اور کاص طور پر جب وہ کشمیر کی ہماری شہ رگ پر قابض ہے ،گیس کی فراہمی جیسے منصوبے میں شامل کر لیا تو ہم بھارت کو رعایت دینے اور اس سے اپنا حق لئے بغیر ہی ایسی بین الاقوامی سطح پر سخت تسلیم کردہ پابندیوں، اصولوں اور قوانین کے پابند ہو جائیں گے کہ جس سے ہمارے ہاتھ پائوں بندھ جائیں گے اور پھرہم بھارت سے اپنا کوئی حق بھی مانگنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں گے۔البتہ کسی ایسے بڑے معاہدے سے پہلے بنیادی مسائل کے حل کی کوشش کے لئے اس سب کو بطور دبائو استعمال کیا جائے تو اس کے بہت فوائد برآمد ہو سکتے ہیں۔ بھارت پاکستان سے زیادہ توانائی کی قلت کا شکار ہے اگر ہم اس گیس منصوبے کو بھی کشمیر، پانی سرکریک، سیاچن اور دہشت گردی جیسے مسائل کے ساتھ منسلک کر لیں تو ایک زبردست دبائو پیدا کیا جا سکتا ہے اور یہ اس حوالے شاندار موقع ہے جس سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔
تحریر: علی عمران شاہین