لاہور (ویب ڈیسک) نامور کالم نگار حامد میر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اگر کوئی غلط فہمی ہے تو اپنے دل و دماغ سے نکال دیجئے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بعد بھارت کی نظر آزاد کشمیر پر ہے۔بھارت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر سبرامینم جے شنکر نے 17ستمبر کو نئی دہلی میں میڈیا سے کہا ہے کہ ’’توقع ہے پاکستانی مقبوضہ کشمیر ایک دن ہمارے زیر اختیار ہوگا۔‘‘ جے شنکر نے اپنی گفتگو میں الفاظ کا استعمال بہت سوچ سمجھ کر کیا۔ موصوف نے کہا پاکستانی مقبوضہ کشمیر ہماری فزیکل اتھارٹی میں ہوگا۔ اس سے قبل بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے یہ کہا تھا کہ پاکستان سے مذاکرات ہوں گے تو پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر ہوں گے۔ وزیر داخلہ امیت شاہ بار بار کہہ چکا ہے کہ ہم پاکستانی کشمیر کو بھارت کا حصہ بنائیں گے لیکن وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر ہمارے زیرِ اختیار ہوگا۔ جے شنکر بھارت کا پہلا وزیر خارجہ ہے جو سیکرٹری خارجہ بھی رہ چکا ہے۔ امریکہ اور چین میں اپنے ملک کا سفیر بھی تھا اور ڈپلومیٹک کیریئر کی ابتدا روس سے کی۔ جب تک راج ناتھ سنگھ اور امیت شاہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر قبضے کی بڑھکیں مارتے رہے تو بھارتی میڈیا نے بھی ان بڑھکوں پر توجہ نہیں دی لیکن جے شنکر کی طرف سے بیان سامنے آنے کے بعد ناصرف بھارتی میڈیا بلکہ عالمی سفارتی حلقوں کے کان بھی کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ بیان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی تقریروں سے صرف دس دن قبل دیا گیا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی طرف سے ملفوف انداز میں صرف پاکستان کو جنگ کی دھمکی نہیں دی جا رہی بلکہ پوری دنیا کو ذہنی طور پر تیار کیا جا رہا ہے کہ بھارت فی الحال مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا اور اگر مذاکرات ہوئے تو اس علاقے پر نہیں ہوں گے جسے پاکستان کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کہا جاتا ہے. مذاکرات اس علاقے پر ہوں گے جسے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کہا جاتا ہے۔
ظاہر ہے یہ اس صورت میں ممکن ہے جب کسی محدود جنگ یا جارحیت کے نتیجے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لیا جائے۔ جو لوگ ریاستِ جموں و کشمیر کے جغرافیے سے واقف ہیں وہ اس رائے سے اتفاق کریں گے کہ بھارتی فوج کے لئے مظفر آباد تک پہنچنا بہت مشکل ہے البتہ کسی حملے کے نتیجے میں چند کلومیٹر علاقے پر قبضہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ قبضہ پاکستان بھی کر سکتا ہے۔ جو بھی پہلے حملہ کرے گا وہ کچھ نہ کچھ علاقے پر قبضہ کر سکتا ہے کیونکہ لائن آف کنٹرول پر ہر جگہ آہنی باڑ نہیں ہے۔ عرض یہ کرنا ہے کہ 5اگست کو بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے لئے اپنے آئین میں موجود دفعہ 370اور 35اے ختم کرکے ایک وعدہ پورا کیا لیکن وہ آزاد کشمیر پر قبضے کا وعدہ پورا کرنے کی بھی تیاری میں ہے۔ اب ذرا یہ سوچئے کہ بھارت کے عزائم کے مقابلے پر پاکستان کی کیا تیاری ہے؟ اس وقت پاکستان کو جس اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے، وہ اتحاد پیدا کرنے کے لئے عمران خان کی حکومت نے کیا اقدامات کئے ہیں؟ کیا وزیر قانون فروغ نسیم کی طرف سے کراچی میں دفعہ 149کے استعمال کی تجویز سے یکجہتی کو فروغ ملا؟
اس تجویز کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے سندھو دیش سے ڈرانے کی کوشش کی اور نیب نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو جعلی اکائونٹس کیس میں طلب کر لیا۔ وزیراعظم عمران خان مسئلہ کشمیر پر تقریریں تو بہت کر رہے ہیں لیکن ان کے کئی ناقدین کا خیال ہے کہ کشمیر پر بیان بازی کا اصل مقصد ملک کے معاشی مسائل سے توجہ ہٹانا ہے۔ حالات کی نزاکت کا تقاضا یہ تھا کہ عمران خان داخلی استحکام کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتے لیکن پیر کو قومی اسمبلی میں ان کے نوجوان وزیر مراد سعید اور پیپلز پارٹی کے قادر پٹیل نے ایک دوسرے کے بارے میں جو لب و لہجہ اختیار کیا، تو یہ لگتا ہی نہیں تھا کہ ہماری سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ ایسا لگتا تھا کہ مراد سعید کو اصل خطرہ نریندر مودی سے نہیں بلکہ بلاول بھٹو زرداری سے ہے۔ اب ذرا اپوزیشن کے کردار کا جائزہ بھی لے لیں۔ حکومت نے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی تو اپوزیشن نے بھی اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ مولانا فضل الرحمٰن چاہتے ہیں کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی طرف سے اسلام آباد میں دھرنے کی حمایت کی جائے لیکن ان دونوں کی پارٹیاں آئیں بائیں شائیں کر رہی ہیں۔ حکومت کو اپوزیشن کی نیت پر شک ہے اور اپوزیشن کو اپوزیشن کی نیت پر شک ہے۔ شک و شبہے سے بھرپور صورتحال میں مولانا فضل الرحمٰن اکتوبر کے آخر میں اسلام آباد کے لاک ڈائون کی کال دینے کے ارادے پر مضبوطی سے قائم ہیں اور چند ہفتوں کے التوا پر بھی راضی نہیں۔ انہیں یقین ہے کہ وہ اسلام آباد میں بہت بڑا مجمع اکٹھا کر لیں گے اور جو انہیں مولانا ڈیزل کہہ کر چھیڑتے تھے، انہیں اسلام آباد سے بھاگنے کے لئے ڈیزل نہیں ملے گا۔
عمران خان کے ساتھ وہی کچھ ہونے والا ہے جو عمران خان نے نواز شریف کی حکومت کے ساتھ کیا تھا اور عمران خان کی حکومت وہی غلطیاں کر رہی ہے جو نواز شریف کی حکومت نے کیں۔ جب عمران خان نے دھرنا شروع کیا تو نواز شریف حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور میڈیا سے بھی لڑنا شروع کر دیا۔ عمران خان کی حکومت بھی وہی کر رہی ہے۔ ابھی مولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا شروع بھی نہیں ہوا اور حکومت نے چیف الیکشن کمشنر سمیت کئی ججوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سونے پر سہاگہ میڈیا ٹریبونلز قائم کرنے کا فیصلہ ہے۔ عدلیہ سے بھی لڑائی، میڈیا سے بھی لڑائی، اب تو تحریک انصاف نے آپس میں بھی لڑائی شروع کر دی ہے۔ آج کل تحریک انصاف والے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے ساتھ گالم گلوچ کر رہے ہیں، اسی لئے مولانا فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ کوئی اسلام آباد آئے نہ آئے، میں تو آئوں گا اور اگر مجھے گرفتار کرلیا گیا تو میرے کارکن ہر صورت آئیں گے۔ مولانا کو یقین ہے کہ اب عمران خان کی حکومت کو کوئی نہیں بچا سکتا۔ یہ کہنے کے بعد وہ کچھ رکتے ہیں، کچھ سوچتے ہیں اور پھر کہتے ہیں ’’ہاں ایک صورت میں عمران کی حکومت بچ سکتی ہے، وہ یہ کہ بھارت ہم پر حملہ کر دے۔‘‘