تحریر: عارف کسانہ
بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے ساتھ دوستی اور تجارت ہونی چاہیے۔ ہندوستان خطے کا بڑا اور اہم ملک ہے اور ہمیں اس کے ساتھ قریبی اور خوشگوار تعلقات قائم کرنے چاہیئں۔ جنگ نہیں ہونی چاہیے بلکہ دونوں ممالک کو امن اور سلامتی سے رہنا چاہیے۔
دوسری جانب ہندوستان میں بھی کئی لوگ دوستی اور تجارت کی بات کرتے ہیں۔ اس حقیقت سے کسے انکار ہے کہ مسائل جنگوں سے حل نہیں ہوتے اور امن و سلامتی کا راستہ ہی سب کے لیے فائدہ مند ہے، لیکن امن اور دوستی کس قیمت پر؟ ہم بھی امن چاہتے ہیں اور جنگ کے متمنی نہیں، لیکن کیا ظلم، زیادتی، اور دوسروں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کے تسلسل میں امن اور دوستی ممکن ہے؟
ہمسایہ ممالک کی آزادی و خود مختاری اور قومی وقار کو تسلیم کیے بغیر کیا امن اور دوستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے؟ ‘اکھنڈ بھارت’ کے نظریے کی موجودگی کے باعث کیا آپس میں دوستی ممکن ہے؟ ہندوستان سے امن، دوستی اور تجارت کی خواہش رکھنے والوں سے گذارش ہے کہ آئیے غیر جانبدارانہ انداز میں عدل و انصاف کے ترازو میں ماضی کی تاریخ اور موجودہ طرزِ عمل کا جائزہ لیتے ہیں، پھر اس کے بعد فیصلہ ہر کسی کی اپنی فہم پر چھوڑتے ہیں۔
پہلے ایک اصول طے کریں اور پھر اُس کی روشنی میں امن اور دوستی کی جانب بڑھیں اور اس بات کا فیصلہ کریں کہ 1947 سے لے کر اب تک کس ملک نے برِ صغیر میں امن کی آشا کو مجروح کیا ہے۔ کس نے ناجائز اور جبری قبضہ کر کے اپنا رقبہ بڑھایا ہے اور دوسروں کی آزادی اور خود مختاری کو سلب کیا ہے۔ کس نے جمہوری روایات کو پامال کر کے عوام کو حق خودارادیت سے محروم کیا ہوا ہے۔ کس نے بین الاقوامی قانون اور اقوام عالم سے کیے ہوئے اپنے وعدے پورے نہیں کیے۔ کس نے بین الاقوامی اصولوں کو روندتے ہوئے دوسروں کی علیحدگی کی تحریکوں کی پشت پناہی کر کے ملک توڑے ہیں۔ انصاف کے ترازو میں یہ معاملات تولنے کے بعد جو چاہے فیصلہ کریں۔
15 اگست 1947 کو جو ہندوستان آزاد ہوا تھا وہی حقیقی اور قانونی ہندوستان ہے اور اس کے بعد ہندوستان نے اپنے رقبے میں جو بھی اضافہ کیا ہے وہ غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ کیا امن اور سلامتی کے لیے ہندوستان پہل کرتے ہوئے پندرہ اگست 1947 کے بعد قبضہ کیے ہوئے تمام علاقے خالی کرنے پر تیار ہوگا؟ آزادی کے بعد ہندوستان نے پانچ ریاستوں پر جبری قبضہ کر کے اُن کی آزادی اور خود مختاری کو سلب کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو غلام بنا رکھا ہے۔
بین الاقوامی اصول و ضوابط پامال کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو جدا کرنے میں جو گھناؤنا کردار اس نے ادا کیا، اُس کا اعتراف وہ خود کر رہے ہیں۔ ہندوستان کی موجودہ سرکار اُسی اصول پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اعلانیہ ‘اکھنڈ بھارت’ کے حصول کو اپنا قومی نظریہ قرار دے رہی ہے۔ کیا اس طرزِ عمل میں امن و دوستی ممکن ہے؟
ہندوستان نے اپنی آزادی کے فوری بعد 26 اکتوبر کو ریاست جموں کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا۔ اس نے مہاراجہ کی جانب سے نام نہاد الحاق کو اس کی بنیاد بنایا لیکن آج تک ہندوستان الحاق کی وہ دستاویزات نہیں دکھا سکا اور نہ ہی کشمیری عوام کو آزادانہ رائے شماری کا حق دینے کا اقوام عالم سے کیا گیا وعدہ پورا کیا۔ یہ ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت نہرو ہی تھے جنہوں نے لال چوک سری نگر میں کھڑے ہو کر جموں کشمیر کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اس الحاق کی کوئی بنیاد نہیں بلکہ کشمیری عوام سے آزدانہ رائے شماری کے ذریعہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ متحدہ ہندوستان کے آخری وائسراے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی یہی کہا تھا کہ الحاق عارضی ہے، جبکہ حقیقی الحاق کا فیصلہ عوام کی رائے سے ہوگا۔ ہندوستان نے آج تک کشمیری عوام کو رائے دہی کا یہ حق نہیں دیا۔
ہندوستان نے دوسرا غاصبانہ قبضہ 9 نومبر 1947 کو ریاست جونا گڑھ اور مناور پر قبضہ کر کے کیا حالانکہ اس ریاست نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جونا گڑھ کے وزیر اعظم سر شاہنواز بھٹو نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی درخواست کی جسے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے قبول کیا اور اس طرح یہ ریاست قانونِ آزادیء ہند کے تحت پاکستان کا حصہ بن گئی۔
حکومتِ پاکستان ایک مدت تک اسے اپنا علاقہ قرار دیتی رہی اور اس کی دعویدار رہی۔ جب ہم اسکول کے طالب علم تھے تو اُس دور میں درسی کتابوں بلکہ سروے آف پاکستان کے سرکاری نقشوں میں جونا گڑھ اور مناور کو پاکستان کا حصہ دکھایا جاتا رہا۔ حکومت پاکستان بعد میں خاموشی سے اپنے اس حصہ سے دستبردار ہوگئی، معلوم نہیں کیوں۔ ابھی بھی کراچی میں جونا گڑھ سے تعلق رکھنے والے لوگ اس مسئلے کو اٹھاتے رہتے ہیں۔ حکومت پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔
ہندوستان نے تیسرا جبری اور غاصبانہ قبضہ ریاست حیدرآباد دکن پر کیا۔ 1947 میں تقسیمِ ہندوستان کے قانون کے تحت برِ صغیر کی ریاستوں کو حق حاصل تھا کہ وہ ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کر لیں، یا پھر اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان کردیں۔ اسی اصول کے تحت حیدرآباد ریاست کے حکمران نظامِ حیدرآباد نے خود مختاری کا فیصلہ کیا اور یوں انگریزوں کے جانے کے بعد برصغیر میں پاکستان، ہندوستان اور حیدرآباد تین ملک بن گئے۔
پاکستان نے حیدرآباد کی خود مختاری کو قبول کیا اور مشتاق احمد خان اُس کے سفیر کی حیثیت سے پاکستان میں تعینات ہوئے۔ حیدرآباد نے برطانیہ میں بھی اپنا سفیر مقرر کیا۔ ہندوستان نے اپنی غاصبانہ اور ‘اکھنڈ بھارت’ کی پالیسی کے تحت قائد اعظم کی وفات کے فوراََ بعد حیدرآباد پر فوج کشی کردی۔ 13 سے 18 ستمبر 1948 تک حیدرآباد میں ہندوستانی افواج اور بلوائی قتلِ عام میں مصروف رہے اور دو لاکھ افراد کے قتل کے بعد حیدرآباد ہندوستان کے قبضے میں چلا گیا۔
‘اکھنڈ بھارت’ کی پالیسی کے تحت 1961 میں دادرا، نگر حویلی اور گوا پر قبضہ کر لیا گیا۔ سکم کی ریاست اس سلسلے کی پانچویں مثال بنی جسے ہندوستان اپریل 1975 میں ہڑپ کر گیا۔ مشرقی پاکستان میں اگرچہ حالات خراب تھے لیکن وہ پاکستان کا اندرونی معاملہ تھا جس میں ہندوستان کو مداخلت کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔
بنگلہ دیش کی جانب سے سابق ہندوستانی وزیر اعظم کے لیے سب سے بڑے اعزاز اور ہندوستانی وزیر اعظم کے وہاں دیے گئے بیانات اعترافِ جرم کے حیثیت رکھتے ہیں۔ افغانستان میں اُن کی سرگرمیاں، اور بلوچستان اور کراچی کے حالات میں مداخلت کیا سابقہ پالیسی کا تسلسل نہیں ہے؟ ہمارے کئی دانشور مسئلہ کشمیر کو پاک ہندوستان تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسے ایک طرف رکھ کر ہمیں دوستی اور باہمی تجارت کرنی چاہیے۔
اسی قبیل کے لوگ پاک فوج کو ہندوستان کے ساتھ کشیدگی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ایسے عناصر یا تو تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں یا پھر حقیقت سے روگردانی کرتے ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ اگر نہ بھی ہوتا تو پھر بھی ‘اکھنڈ بھارت’ پالیسی کے ہوتے ہوئے خطے میں امن ممکن نہیں ہے۔ اگرپاکستان کے پاس ایک مضبوط فوج نہ ہوتی تو اس کا حشر یا تو اُن پانچ ریاستوں جیسا ہونا تھا جسے ہندوستان ہڑپ کر گیا یا پھر بھوٹان اور نیپال کی طرح، جو اس کی مطیع ہو کر رہ گئی ہیں۔
ہندوستان نے جس طرح سے پاکستان کو توڑا اور اب بھی اسے غیر مستحکم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے، اس کے برعکس پاکستان کا رویہ مختلف ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کشمیر کی آزادی کی تحریک کی حمایت کرتا ہے اور آزادی کے لیے 1965 میں فوجی کوشش بھی کی لیکن اس کے ساتھ ہی 1958 میں آزاد کشمیر اور پاکستان میں مقیم مہاجرینِ جموں کشمیر کی پاکستان کی جانب سے سیزفائر لائن کو توڑنے اور واپس جموں کشمیر جانے کی تحریک کشمیر لبریشن موومنٹ کو پاکستان نے روک دیا جس پر ہندوستان نے اُس کا شکریہ ادا کیا۔
پھر پاکستان نے تو ہندوستان کی سلامتی اور تحفظ کے لیے صدر ایوب خان کے دور میں مشترکہ دفاع کی پیش کش بھی کی۔ پاکستان نے تو ہندوستان کے جہازوں گنگا اور بوئنگ 707 کو اغوا کرنے والے ہاشم قریشی، اشرف قریشی اور عبد الحمید دیوانی کے سات ساتھیوں اور دوسرے بہت سوں پر وہ تشدد کیا کہ آج بھی شاہی قلعہ، دلائی کیمپ، قلعہ چلاس اور دوسرے عقوبت خانے اُس کے گواہ ہیں۔
1992 میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے مارچ کو پاکستان نے روکا جس میں 8 افراد ہلاک ہو گئے۔ اگر اس مارچ کو نہ روکا جاتا تو ممکن ہے آج کشمیر کی تاریخ مختلف ہوتی۔ اسی طرح ہندوستان کو پاکستان کا احسان مند ہونا چاہیے کہ اس نے خالصتان کی تحریک کو ختم کرنے میں اُس کی مدد کی۔ اس کے برعکس ہندوستان نے ہمیشہ پاکستان مخالف عناصر کی نہ صرف مدد کی بلکہ انہیں تربیت دے کو اسلحے سمیت واپس بھیجا تاکہ وہ اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔
امن اور دوستی کے لیے ضروری ہے کہ دوسروں کی آزادی، خود مختاری، قومی وقار اور سلامتی کا احترام کیا جائے۔ باہمی تنازعات عدل و انصاف کے اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے حل کیے جائیں۔ عالمی برادی سے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں اور توسیع پسندانہ پالیسی کو ترک کر کے دوسروں کو بھی آزادی اور خود مختاری کے ساتھ جینے کا حق دیا جائے۔ ورنہ ظلم رہے اور امن بھی ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
تحریر: عارف کسانہ