تحریر: ارشاد حسین
میں ایک کشمیری ہوں اور میرا ان سب ممالک کے سربراہان سے ایک سوال ہے جن کے عوام آزادی کی فضائوں میں سانس لے رہے ہیںکہ ہمیں کب آزادی ملے گے۔ ہم کب آزاد فضائوں میں سانس لے سکیں گے ۔نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے میں اب بوڑھا ہو چکا ہوںمیرے بیٹوں کے بچے بھی اب جوان ہونے لگے ہیں ۔میں نے جب سے شعور سنبھال ہے تب سے میں گولیوں کی آوازیں سنتا آرہا ہوں ۔ہر طرف بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے ۔میری اس وادی میں پیدا ہونے والا ہر بچہ گولیوں کی آواز سن کر ہی اپنی آنکھیں کھولتا ہے کشمیر جنت نظیر کی خوبصورت وادیاں اداس ہیں ۔پرندے جو ان خوبصورت وادیوں میں چہچہاتے تھے اب ان پر بھی خوف طاری ہے۔چشمے جو اس وادی کا حسن تھے وہ بھی اداس اداس سے لگتے ہیں۔
میںنے اپنا بچپن اور جوانی سہمے سہمے ہوئے گزار دیا کہ کب بھارتی فوج کی شکل میں موجود درندوں کی بندوقیں شعلے اگلیں اور لاشیں گرنا شروع ہوجائیں۔میں نے ہر طرف ظلم اور بربریت کی داستانیں رقم ہوتی دیکھیں ۔اپنے پیاروں کو گولیاں کھا کر گرتے اور شہید ہوتے دیکھا ۔میں نے اپنے ابو اور امی کو گولی لگنے سے سڑک پر تڑپتے اور دم توڑتے دیکھا ۔وہ دن میرے لیے کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔
یہ صرف میری کہانی نہیں بلکہ یہ ہر کشمیری گھر کی کہانی ہے کسی کابھائی نہیں رہا تو کسی کا باپ ،کسی کادوست شہید ہواتو کسی کی بہن ۔لیکن ان درندوں کو ہم پر رحم نہیں آیا۔ وہ گولیاں مارتے رہے اور کشمیری سینہ تان کر اپنے حق اور آزادی کے لیے لڑتے رہے اور آج بھی لڑرہے ہیں۔ہزاروں گھرانے اجڑ گئے مائوں نے اپنے لخت جگر گنوا دیے۔لیکن کوئی بھی ملک ان مظالم کے خلاف نہ بولا۔
ان کے کانوں پر بھی جوں تک نہ رینگی جو جمہوریت کا لبادے اوڑھے انسانوں پر ہونے والے مظالم پر واویلا کھڑا کردیتے ہیں لیکن ہمارے ساتھ ہونے والے بھارتی مظالم پر کسی نے آواز کیوں نہ اٹھائی۔ میں ان سربراہاں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو ہر وقت جمہوریت کا راگ الاپتے تھکتے نہیں ہیں کہ آپ کی زبانیں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف کیوں نہیں بولتیں ۔کیا کشمیری انسان نہیں ہیں کیا ان کا حق نہیں ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ رہ سکیں اپنے رسم ورواج کے مطابق زندگی گزار سکیں۔اپنے بچوں کو آزاد فضائوں میں تعلیم دلا سکیں ان کا قصور کیا تھا صرف یہی کہ وہ آزادی مانگ رہے تھے اپنا حق مانگ رہے تھے۔
کیا آزادی مانگنا او ر اپنا حق مانگنا جرم ہے ۔اگر یہ جرم ہے تو ہم جرم کرتے رہیں گے خواہ اس کے لیے ہمیں کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں میرا ایک سوال پاکستانی حکمرانوں سے بھی جو ہمیں اپنا سمجھتے ہیں اور ہمیں اپنا بنانا چاہتے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ عالمی دنیا کے سامنے اٹھانے میں ہچکچاتے ہیں۔
ہم ہر نئی آنے والی حکومت سے امیدیں وابستہ کیں لیکن ہمیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے ۔جس طرح پاکستانی عوام کا دل ہمارے لیے دھڑکتا ہے اسی طرح ہمارا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے ۔ہم اپنی آزادی کے لیے لڑرہے ہیں اور انشا اللہ ایک دن ہمیں آزادی ضرور ملے گی۔
تحریر: ارشاد حسین