بہوپال: بھارت کی ریاست مدیحہ پردیش کے ضلع ساتنا میں مبینہ طور پر گائے ذبح کرنے کے الزام میں ہجوم نے ایک مسلمان شخص پر تشدد کرکے اسے جاں بحق کردیا۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق مشتعل ہجوم نے گائے ذبح کرنے کا الزام لگاتے ہوئے 45 سالہ ریاض کو لاٹھی اور پتھر سے تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ جاں بحق ہوگیا، جبکہ اس کا دوست 33 سالہ شکیل واقعے میں شدید زخمی ہوا۔ واقعے کے بعد ہجوم جائے وقوع سے فرار ہوگیا تھا۔ خیال رہے کہ مذکورہ علاقے کی سیکیورٹی انتہائی سخت ہے جہاں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ 2 روزہ دورے پر موجود ہیں۔
بعدازاں پولیس نے 4 ملزمان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔ رپورٹس کے مطابق پولیس آفیسر راجیش ہنگانکر کا کہنا تھا کہ ایک ذبح کیے گئے بیل اور دیگر 2 جانوروں کے گوشت سے بھرے بیگ بھی برآمد کیے گئے ہیں۔ پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ واقع کے بعد علاقے میں حالات کشیدہ ہیں جبکہ امن و امان کو بحال رکھنے کے لیے پولیس کی اضافی نفری علاقے میں تعینات کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے زخمی مسلمان شخص کے خلاف گائے ذبح کرنے کا مقدمہ درج کرلیا جو جبل پور کے ہسپتال میں کومہ کے باعث زیر علاج ہے۔ مدیحہ پردیش میں گائے ذبح کرنے پر ملزم کو 7 سال قید اور 5 ہزار روپے جرمانے کی سزا کا قانون رائج ہے، یاد رہے کہ ریاست نے اس حوالے سے 2012 میں قانون میں ترمیم کی تھی۔ گذشتہ کچھ سالوں کے دوران گائے اسمگل کرنے یا گائے کا گوشت کھانے کے شبے میں ہندو انتہا پسندوں کے حملوں میں ایک درجن سے زائد مسلمان مارے جاچکے ہیں۔
2015 میں بھی ایک مسلمان شخص کو اس کے پڑوسیوں نے اس شبے میں قتل کردیا تھا کہ اس نے گائے کو ذبح کیا ہے تاہم بعد ازاں پولیس کا کہنا تھا کہ مقتول کے گھر سے برآمد ہونے والا گوشت بکرے کا تھا۔ 5 اپریل 2017 کو بھارت میں گائے ذبح کرنے پر بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ہندو انتہا پسندوں کے تشدد سے گائے کی ترسیل کرنے والا مسلمان شخص جاں بحق ہوگیا تھا۔
یکم مئی 2017 کو بھارتی ریاست آسام میں گائے چوری کے شبہ میں 2 مسلمان نوجوانوں کو مشتعل افراد نے تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ 25 جون 2017 کو بھارتی پولیس نے دارالحکومت نئی دہلی کے قریب چلتی ٹرین میں ایک مسلمان کو چاقو کے وار سے ہلاک کرنے والے ہندو کو گرفتار کرلیا تھا۔ 28 اگست 2017 کو بھارت کی مشرقی ریاست بنگال کے ایک گاؤں میں ٹرک پر مویشی لے جانے والے 2 مسلمانوں کو مشتعل دیہاتیوں نے تشدد کرکے ہلاک کردیا تھا۔ یاد رہے کہ اکثریتی ہندو آبادی کے ملک بھارت میں گائے کو مقدس سمجھا جاتا ہے جبکہ ملک کی کئی ریاستوں میں اس کے ذبح کرنے پر پابندی ہے۔ ہندوستان میں گائے کے ذبیحہ کے معاملے پر جاری حالیہ کشیدگی کے دوران بھارت کی شمالی اور مغربی ریاستوں میں انتہا پسندوں کے گروہ شاہراہوں سے لے جائے جانے والے مویشیوں کی ٹرکس کی نگرانی کررہے ہیں تاکہ ذبح کرنے کے غرض سے جانوروں کی ترسیل کرنے والے افراد کی نشاندہی کی جاسکے۔
ناقدین کے مطابق 2014 کے انتخابات میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور نریندر مودی کی وجہ سے ان انتہاپسند افراد کو زیادہ حوصلہ ملا۔ 2016 میں بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے گائے کی حفاظت کرنے والے افراد پر تنقید کرتے ہوئے ان افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا جو مذہب کا استعمال کرکے جرم کررہے ہیں۔ علاوہ ازیں 2017 میں بھارتی وزیراعظم کی جانب سے ملک کی سب سے زائد آبادی والی ریاست اترپردیش کے لیے وزیر اعلیٰ کیلئے دائیں بازو کے ہندو پجاری کی تقرری کی تھی جس نے صورتحال مزید گھمبیر کر دی۔