تحریر : انجینئر افتخار چودھری
سنائیں وہ دوست جنہیں پٹھانکوٹ کی پیڑ پڑی ہوئی تھی سیفما والے مادر پد آزاد لبرل فسادیے ٹھنڈ پڑ گئی۔اب کوئی انڈیا کی طرف انگلی نہیں اٹھائے گا نہ دانشور نہ صحافی اور نہ ہی سیاست دان سب کہیں گے ادھر ساتھ ہی سے آئے ہیں ۔ایک نے تو دور کی کوڑی لائی کے انڈیا اتنی دور سے کہاں آ کر حملہ کر سکتا ہے یہ افغانستان سے آئے ہیں ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو مگر پڑوسی مل افغانستان میںانڈیا کے بڑی تعداد میں قونصل خانے کیا خشک میوہ جات کی خریداری کرتے ہیں اور وہ بھارتی وزیر دفاع جس نے کہا کہ بس بہت ہو چکی اب ہند صبر نہیں کرے گا جب چاہے گا جہاں چاہے گا حملہ کرے گا۔لوگ سمجھتے تھے کہ لاہوری کچوریاں کھا کر مودی کی بغلی چھری غائب ہو چکی ہے۔معصوم لوگ چانکیہ کی سیاست سے ناآشناء ہیں۔بھروسہ کر لیتے ہیں۔
بہت ہو چکا دوست اور دوستی کا ڈرامہ ۔پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کو اب جان لینا چاہئے کہ انڈیا ہمارا ازلی دشمن ہے اور دشمنوں کے ساتھ اگر رہنا ہے تو ہشیار رہ کر اینٹ کا جواب پتھر سے دیتے ہوئے رہنا ہے۔ جی ہاں جذبات تو بڑھکیں گے غصہ بھی آئے گا۔ابھی وائس آف آف امریکہ سے بات کر کے ہٹا ہوں وہاں بھی دنیا کے سامنے کہا کہ بزدل چوہے چھپ کر وارکرتے ہیں سامنے آئے دیکھتے ہیں کہ وہ ہیں کیا۔
یاد رکھئے خطے میں امن تب ہی ہو گا جب دشمن کو سوا سیر بن کے دکھایا جائے گا۔ روز کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم نے دشمن کی کمر توڑ دی ہے یقینا توڑ دی ہے مگر اتنا تو ذہن میں رہے سانپ کمر توڑنے سے نہیں سر کچلنے سے مرتا ہے۔کون ہیں وہ لوگ جو ضرب عضب کے لئے پیسے نہیں دے رہے فرنٹیئر کانسٹیبلری کہتی ہے قینچی چپل پہن کر ڈیوٹی دیتے ہیں۔قوم ان حرامخوری کے پراجیکٹس کی بجائے اپنا دفاع چاہتی ہے۔نہیں چاہئیں یہ میٹر اورنج ٹرینیں لوگوں کو اپنے بچوں کا تحفظ چاہئے۔
یہ بار بار خیبر پختونخوا کو کیوں مارا جا رہا ہے۔یہ کون ہے جو عمران خان کے صوبے کو عدم استحکام کی جانب دھکیل رہا ہے؟یہ سوال اپنی جگہ ایک چارسدہ کے جوان نے وائس آف امریکہ پر اٹھایا ہے میرے پاس کوئی جواب نہیں اپبتہ یہ ضرور کہا کہ ہمارے صوبے کے بہادر لوگ اپنے سینے پر گولی کھا کر لاہور کراچی ملتان کوئیٹہ بچا رہے ہیں خدا نخواستہ اگر کے پی کے کی حکومت نے بزدلی کا مظاہر ہ کیا تو یہ بانسری آگے جا کر بھی بج سکتی ہے۔باز آ جائیں ضرب عضب کو فیل کرنے کی سازش کرنے والے۔ورنہ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔ میں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی میں ایک ترمیمی بل لایا جائے کہ دہشت گردوں کو سر عام لٹکا کر پتھروں سے مارا جائے تا کہ دہشت گرد جان لیں کہ کسی کی جان لینا کتنی تباہی لا سکتا ہے۔سعودی عرب نے ٤٧ کی گردنیں ماری ہیں اب مملکت کے باغیوں اور بم دھماکے کرنے والوں کو پتہ چل گیا ہوگا کہ پٹاخے چلانے کے کیا فائدے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں آج کیوں خاموش ہیں ۔جب کوئی مختاراں مائی ملتی ہے تو چند عورتیں اس کے حقوق کا نام لے کر پاکستان کو سر بازار رسوا کرتی ہیں اس لئے کہ دیہاڑی لگتی ہے۔آج آئیں نہ سر بازار۔ایک ملا کوئی بیان داغ دے تو اسلام آباد کی سڑکوں پر بین کرتی ہوئی سر سے ننگی اعلی تعلیم یافتہ عورتیں برآمد ہو جائیں گی آج غریب کے بچے مرے کل کوئی نہیں نکلے گا۔
یاد رکھئے چینی کہاوت ہے آپ آدھی جنگ اسی وقت جیت لیتے ہیں جب آپ اپنے دشمن دشمن کو پہچان لیتے ہیں پاکستان نے ابھی تک اپنا دشمن نہیں پہچانا۔وہ اسی سے مار کھا کر اسی کے گلے لگتا جس کا نام ہندوستان ہے۔ سچ پوچھیں تو ہمیں بھی بھارتی وزیر دفاع جیسا وزیر چاہئے
تحریر : انجینئر افتخار چودھری