تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
برِصغیر پاک وہند میں تموج اور تناؤ پیداکرنا بھارتی وزیرِاعظم نریندرمودی کی سرشت میںشامل اورمسلمانوںسے نفرت گھٹی میںپڑی۔ جوع الارض کا یہ نفسیاتی مریض ہمیشہ اکھنڈبھارت کے خواب دیکھتارہتا ہے ۔جب گجرات کاوزیرِاعلیٰ تھاتو سکولوںکے نصاب میںاکھنڈ بھارت کاایسا نقشہ شامل کرووایاجس کے مطابق پاکستان ،بنگلہ دیش ،افغانستان، سری لنکا ،نیپال ،بھوٹان ،تبت اوربرما اکھنڈبھارت کے ”اٹوٹ انگ”۔ اب اسی احمقانہ خواب کی تکمیل کے لئے دیدۂ حکمت سے تہی یہ کورچشم پورے برِصغیرکی سلامتی داؤ پہ لگانے کے درپٔے ۔اسی بناپر نہ صرف بھارت بلکہ اقوامِ عالم میںبھی اُس کے خلاف تواناآوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ہندوستان ٹائمز نے اپنے اداریے میںلکھا ”مسلۂ کشمیر پرنریندرمودی کی پالیسی تضادات کاشکارہے”۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمزنے لکھا کہ کشمیرکے معاملے پربھارت احتیاط سے کام لے، اگردونوںملکوں میںجنگ چھڑی توبھارت کابہت زیادہ نقصان ہوگا۔بی بی سی نے کہا ”مودی حکومت نے ایک طرف پاکستان سے مذاکرات کاراستہ کھول رکھاہے جبکہ دوسری طرف کنٹرول لائن پردَراندازی اورفائرنگ میںمصروف ۔بھارت کاخیال ہے کہ وہ مضبوط حالت میںہے اورپاکستان کواپنامؤقف تسلیم کرانے کے لیے مجبورکر سکتاہے ۔تجزیہ نگاروںکے مطابق حکومت کایہ مؤقف خطرات سے پُراور ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتاہے”۔ جنگی جنون میںمبتلاء یہ سوفسطائی اِس وہم میںمبتلاء ہے کہ اُس کاخواب پوراہو جائے گاجبکہ حقیقت یہی کہ وہ بھارتی سلامتی پرسوالیہ نشان ہے کہ دو ایٹمی طاقتوںکے ٹکراؤ کانتیجہ صرف تباہی۔
جس کشمیرپر بھارتی بات کرنابھی پسندنہیں کرتے وہاںساڑھے چھ عشروںسے جہد للبقا میںمصروف کشمیری قربانیوںکی لازوال داستانیں رقم کرتے ہوئے۔یہ الگ بات کہ اقوامِ عالم بے حمیتی کی ”بُکل” مارے ہوئے اورامریکی گھر کی باندی ،درکی لونڈی اقوامِ متحدہ”ٹُک ٹُک دیدم ،دَم نہ کشیدم”۔ اسی اقوامِ متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے کشمیریوںکا ”حقِ خودارادیت”تسلیم کیااوربھارت کے اولین وزیرِاعظم پنڈت جواہرلال نہرونے اِس قرارداد پرعمل درآمد کاوعدہ بھی کیا لیکن اب بھارتی اس کے ذکرپربھی بدک اٹھتے ہیں۔
روس کے شہر ”اوفا” میںجاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں واضح طورپر یہ لکھاگیا کہ تمام متنازع امور مذاکرات کے ذریعے حل کیے جائیںگے ۔ اسی بناپر پاکستانی مشیرِخارجہ کومذاکرات کی دعوت بھی دی گئی لیکن پھربھارت کاخبثِ باطن عیاںہوتا چلاگیا ۔پہلے پاکستان میںکامن ویلتھ سپیکرز کانفرنس کوثبوتاژ کرنے کے لیے یہ احمقانہ مطالبہ کیاکہ اِس کانفرنس میںمقبوضہ کشمیرکے سپیکرکو بھی مدعوکیا جائے ۔جس پرپاکستان نے نہ صرف صاف انکارکر دیابلکہ کامن ویلتھ سپیکرز کانفرنس کی میزبانی سے بھی معذرت کر لی ۔پھرعین موقعے پرمذاکرات سے فرارکے لیے یہ بہانہ تراشا کہ سرتاج عزیز کشمیری رہنماؤںسے ملاقات سے گریزکریں بصورتِ دیگرمذاکرات منسوخ کردیئے جائیں گے۔ سرتاج عزیزصاحب نے توصاف کہہ دیاکہ پاکستان گزشتہ بیس سالوںسے ہمیشہ حریت رہنماؤںسے ملاقاتیںکرتا آیاہے اوراب بھی کرے گا،اگراِس بنیادپر مذاکرات ملتوی ہوتے ہیںتو ہوجائیں۔
پھربھارت نے ایک اورپینترا بدلااور مذاکرات سے صرف ایک دِن پہلے بھارتی وزیرِخارجہ سشماسراج نے کہہ دیاکہ مذاکرات صرف دہشت گردی پرہونگے کسی اورایشوپر نہیں۔ بھارت کی ایسی احمقانہ بوکھلاہٹوںکی وجہ سے پاکستان کامن ویلتھ سپیکرز کانفرنس کی میزبانی اورپاک بھارت مذاکرات کے بغیرہی سرخرو کہ اقوامِ عالم میںمسٔلہ کشمیراپنی پوری توانائیوںکے ساتھ ابھرکر سامنے آگیااوردنیا نے دیکھ لیاکہ پاکستان کارویہ مفاہمت کی خوشبوسے معمورجبکہ بھارت کاانتہائی معاندانہ اورمخاصمانہ۔
جہاں پاکستانی حکومت کارویہ مدبرانہ رہاوہاں ہمارے پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیانے بھی مسلۂ کشمیرپر الجھاؤ کی بجائے سلجھاؤ کی پالیسی پرہی زوردیاجبکہ زٹل بازبھارتی میڈیاجلتی پرتیل چھڑکنے میںمصروف۔ مجھے PINAُٰکے زیرِانتظام بھارت اورکشمیرکے موضوعات پردو سیمینارز میںشرکت کاموقع ملا۔PINA کے آرگنائزر محترم الطاف حسن قریشی اِس ڈھلتی عمرمیں بھی اپنے عزم ،حوصلے اورپاکستانیت میں جوانوںسے زیادہ جوان ہیں۔اُنہیں مِل اورسُن کریہ یقین ہو جاتاہے کہ ”ابھی کچھ لوگ باقی ہیںجہاں میں”۔ اُن کے احترام کایہ عالم کہ جسے بلایا ،دوڑاچلا آیا۔دونوں سیمینارز میںزرخیز اذہان کے مالک عقیل وفہیم مقررین نے خطاب کیااورسامعین ہرطبقۂ فکرکے چیدہ وچنیدہ احباب پرمشتمل۔
مسٔلہ کشمیرپر ایسی پُرمغز ،اورسیرحاصل گفتگوہوئی کہ تشنگی کااحساس تک نہ رہا، کئی ایسے گوشے بے نقاب ہوئے جن کاشاید سامعین کی اکثریت کوعلم تک نہ تھا۔مقررین کی گفتگومیں جذبات کاعنصر ضرورلیکن مدلل۔ کسی نے دلی کے لال قلعے پر سبزہلالی پرچم لہرانے کی بات نہیںکی لیکن یہ عہد ضرورکہ ہم کسی خبیث کولاہورکے ”جمخانہ” میں شراب پینے کی ناپاک جسارت بھی نہیںکرنے دیںگے ۔دو ماہ کے قلیل عرصے میںمنعقد ہونے والے اِن دونوںسیمینارز کا لبِ لباب یہ کہ دونوںپڑوسی ممالک کے متنازع امورکا حل صرف مذاکرات کی میزپر۔
عین اُس وقت جب بھارتی وزیرِخارجہ بڑی نخوت سے مذاکرات کے لیے پیشگی شرائط عائدکر رہی تھی ،لاہورکے حلقہ 122 کے الیکشن ٹربیونل نے دھماکہ کرتے ہوئے ایساعجیب وغریب فیصلہ صادرفرمایا کہ سَر پیٹنے کوجی چاہتاہے ۔اِس انتہائی متعصبانہ فیصلے کاکوئی سَرہے نہ پَیر۔ شایدیہ پاکستان کی تاریخ کاواحد فیصلہ ہے جس میںجج صاحب اپنی تعریفوںکے پُل باندھتے نظرآئے ۔ ہم محترم جج کو یہ تونہیں کہہ سکتے کہ ”وہ کتنے میںبِکے؟”نہ محترم عمران خاںسے سوال کہ ” اُنہوںنے فیصلہ کتنے میںخریدا؟”۔ احترام واحتیاط لازم۔
البتہ یہ سوال کرنے کاحق ضرورکہ جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میںقائم شدہ جوڈیشل کمیشن یہ فیصلہ دے چکاکہ انتخابی بے ضابطگیوںکی بناپر الیکشن کالعدم قرارنہیں دیاجا سکتاتوپھر کیااُن کایہ فیصلہ توہینِ عدالت کے زمرے میںنہیں آتا؟۔ اگرمحترم کاظم ملک صاحب جوڈیشل کمیشن کی 902 صفحات پرمشتمل رپورٹ کامطالعہ کرنے کی زحمت کرلیتے تووہ اپنی تعریف وتوصیف کی بجائے وہی فیصلہ کرتے جو مبنی برحق ہوتا۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر