اسلام آباد(ایس ایم حسنین) جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر سعودی عرب کی جانب سے خصوصی طور پر جاری ریال میں کشمیر کو علیحدہ ریاست کے طور پر دکھایا گیا۔ اس معاملے پر بھارت کی جانب سے سخت برہمی کا اظہار کیا گیا ہے۔ سعودی عرب، نومبر میں جی 20 کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کے فرائض ادا کرے گا اور اسی مناسبت سے اس نے 20 ریال کا خصوصی کرنسی نوٹ جاری کیا ہےبھارت بھی جی 20 ممالک کا رکن ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق 20 ریال کے خصوصی نوٹ پر کشمیر کو علیحدہ ریاست کے طور پر پیش کرنے پر بھارتی وزارت خارجہ نے ریاض سے اپنے ’تحفظات‘ کا اظہار کیا ہے۔ وزارت خارجہ نے کہا کہ سعودی حکام سے اس معاملے پر ’اصلاحی اقدام‘ اٹھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ شری واستوا نے کہا کہ ’ہم نے سعودی عرب کے سرکاری اور قانونی نوٹ پر بھارت کی بیرونی علاقائی حدود سے متعلق سراسر غلطی کی نشاندہی کی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اس بات کا اعادہ کروں گا کہ ’مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکزی خطے بھارت کے لازمی حصے ہیں‘۔ دوسری جانب سعودی حکام نے تاحال اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
توقع ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نومبر میں منعقد ورچوئل جی 20 سربراہی اجلاس سے خطاب کریں گے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستان نے بھارت کے نئے سیاسی نقشے کو مسترد کردیا تھا جس میں مقبوضہ جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو بھارتی علاقہ قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان نے کہا تھا کہ کوئی بھارتی اقدام مقبوضہ جموں و کشمیر کی متنازع حیثیت کو تبدیل نہیں کرسکتا کیونکہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی جانب سے تسلیم شدہ تنازع ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے 5 اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لیے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے علاوہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں نافذ کرفیو، سیاسی قیادت اور کارکنوں کی گرفتاری، موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی معطلی پر پاکستان بھر میں مسلسل احتجاج کیا جارہا ہے اور بھارتی حکومت کی بھرپور مذمت کی گئی۔بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370) کے خاتمے کے متنازع اقدام کے بعد 31 اکتوبر 2019 کو مقبوضہ وادی کو باضابطہ طور پر 2 وفاقی اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔
مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت موجود ہے جبکہ لداخ میں بدھ مت کے ماننے والے بھی ہیں۔ نئے معاہدے کے تحت جموں و کشمیر ایک کروڑ 22 لاکھ افراد پر مشتمل ایک علیحدہ اور لداخ 3 لاکھ افراد پر مشتمل دوسری اکائی کہلائے گا اور دونوں اکائیاں براہ راست نئی دہلی میں موجود وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہوں گی۔ دوسری جانب چین اور ترکی سمیت اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (یو این ایچ سی آر) نے بھی بھارت کے زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر ‘شدید تشویش’ کا اظہار کرتے ہوئے مقبوضہ خطے میں تمام حقوق کو مکمل طور پر بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
بھارتی عدالتی نظام پر تنقید کرتے ہوئے یو این ایچ سی آر کا کہنا تھا کہ ‘سپریم کورٹ آف انڈیا کی جانب سے نقل و حرکت کی آزادی اور میڈیا پر عائد پابندیوں کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سست عمل کیا جارہا ہے’۔خیال رہے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت نے گزشتہ 72 برسوں سے قبضہ کر رکھا ہے اور 30 برس کے دوران آزادی کی تیز ہوتی ہوئی تحریک کو دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں اور 5 اگست 2019 کو مقبوضہ خطے کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی۔ بھارتی مظالم کے خلاف مقبوضہ وادی کے عوام مسلسل سراپا احتجاج ہیں اور یہ مسئلہ عالمی برادری کے لیے توجہ طلب ہے اور حالیہ اقدامات کے بعد اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی فورمز میں اس پر بات کی جارہی ہے اور تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔