تحریر : سید توقیر حسین
واشنگٹن میں بھارتی لابی وقتی طور پر پاکستان کو ایف 16 طیاروں کی فروخت رکوانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ بھارت تو خیر پاکستان کا جنم جنم کا دشمن ہے، اس کی جانب سے مخالفت قابل فہم بھی ہے اور توقع کے مطابق بھی۔ لیکن اس مہم میں بعض پاکستانی بھی تو شریک تھے، انہیں کیا کہا جائیگا؟ اوبامہ انتظامیہ نے جب سے پاکستان کو ایف 16 طیارے فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تھا، بھارت سیخ پا تھا اور ہر سطح پر اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ پاکستان کو ان طیاروں کی فروخت پر عمل نہ ہوسکے۔ بھارتی مخالفت کے باوجود اوبامہ انتظامیہ نے طیاروں کی فروخت کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا، جس پر بھارت نے دو بار نئی دہلی میں مقیم امریکی سفیر کو طلب کرکے اس فیصلے پر احتجاج کیا۔ اوبامہ انتظامیہ پاکستان کو ایف 16 طیارے فروخت کرنے کے معاملے پر مطمئن تھی کہ پاکستان کو ان طیاروں کی دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں ضرورت ہے۔ پاکستان نے اس جنگ میں بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں طویل عرصے سے آپریشن ضرب عضب جاری ہے، جس میں ایئر فورس کے طیارے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔ پاکستانی ایئر فورس نے اس جنگ میں فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔ اس لئے پاکستان کو ان طیاروں کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔
اس مسئلے پر طویل عرصے تک بات چیت ہوتی رہی، بالآخر اوبامہ انتظامیہ پاکستان کو آٹھ ایف 16 طیارے فروخت کرنے پر رضا مند ہوگئی، بھارت نے اس پر احتجاج کیا تو امریکہ نے یہ احتجاج مسترد کر دیا، امریکی سینیٹ میں بھی یہ معاملہ اٹھایا گیا اور بھارت کو یہاں بھی منہ کی کھانی پڑی، تاہم ڈھٹائی کی حد تک بھارت اس معاملے کا پیچھا کرتا رہا۔ پاکستان کے بعض دوست بھی اس سلسلے میں بھارت کی ہمنوائی کرتے رہے۔ تاہم اب بھارت کو وقتی طور پر یہ کامیابی ضرور مل گئی ہے کہ کانگریس نے امریکی حکومت کو پابند کر دیا ہے کہ وہ طیارے فروخت کرنے سے پہلے ان کی پوری قیمت پاکستان سے وصول کرے، جبکہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان طے ہوا تھا کہ پاکستان 27 کروڑ ڈالر ادا کرے گا، باقی ماندہ رقم جو تقریباً 43 کروڑ ڈالر بنتی ہے، امریکی حکومت نے اس امدادی رقم میں سے ادا کرنی تھی جو پاکستان کو امداد کی صورت میں ملنے والی تھی، تاہم یہ عین ممکن ہے کہ طیاروں کی ڈلیوری شروع ہونے سے پہلے یہ معاملہ حل ہو جائے، کیونکہ پاکستان پوری رقم ادا کرنے کے لئے آمادہ نہیں اور معاہدے کے تحت طے شدہ رقم ہی ادا کرنا چاہے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اب معاملہ طے ہوتے ہوتے طیاروں کی ڈلیوری میں تاخیر ہو جائے اور اگر غیر معمولی تاخیر ہوگئی تو اس دوران اوبامہ کی صدارت کا عہد ختم ہو جائیگا۔ ممکنہ طور پر پھر یہ معاملہ اگلی حکومت طے کرے گی۔
پاکستان اس وقت چین کی مدد سے جے ایف 17 تھنڈر طیارے بنا رہا ہے جن کی خریداری میں دنیا کے کئی ملکوں نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سری لنکا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے پاکستان کے ساتھ ان طیاروں کی خرید کا سودا کیا ہے۔ بھارت نے اس سودے کو بھی رکوانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں سری لنکا کی حکومت پر خاصا دباؤ بھی ڈالا، لیکن چھوٹا ملک ہونے کے باوجود سری لنکا یہ دباؤ برداشت کر گیا اور تمام تر مخالفت کے باوجود اس نے جے ایف 17 تھنڈر طیارے خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔ بھارت دراصل سری لنکا کو اپنے ہاں تیار ہونے والے طیارے فروخت کرنا چاہتا تھا، جو جے ایف 17 تھنڈر کے مقابلے میں بہت ہلکے ہیں۔ دنیا کے کئی دوسرے ملک بھی یہ طیارے خریدنا چاہتے ہیں، دفاعی پیدوار کے وفاقی وزیر تنویر حسین نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ پاکستان جے ایف 17 تھنڈر طیاروں کو ترقی دے کر امریکی ایف 16 کے برابر لائیگا۔ فوری طور پر تو یہ ممکن نہیں، تاہم امریکہ سے طیاروں کے حصول میں مسلسل کاوشوں کے بعد لگتا ہے، پاکستان کو بالآخر یہی راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ پاکستان اس وقت دفاعی اسلحے میں خود کفالت کی جس منزل پر ہے، یہ راستہ بھی اسے امریکی مہربانیوں نے ہی دکھایا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستانی افواج کے پاس زیادہ تر اسلحہ امریکی ساختہ تھا، لیکن 65ء میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو امریکہ نے پاکستان کو ہر قسم کے اسلحہ، گولہ بارود اور فاضل پرزوں تک کی سپلائی روک دی۔ جو پرانا اسلحہ پاکستان کے پاس تھا اور جسے فاضل پرزوں کے ساتھ کارآمد بنایا جاسکتا تھا، وہ بھی بیکار ہوگیا، اور یوں پاکستان کو جنگ کے دوران اسلحے کے حصول میں جن دشواریوں کا سامنا ہوا، اس کے بعد پاکستان نے چین کی مدد سے ہتھیار سازی کے میدان میں قدم رکھا۔ اس وقت پاکستان ٹینک اور جدید ترین طیارے بھی خود بنا رہا ہے، جن میں ڈرون طیارے بھی شامل ہیں۔ جے ایف 17 تھنڈر کا جدید ورڑن بھی بنایا جا رہا ہے، جس میں پائلٹوں کی دو سیٹیں ہوں گی، اس کا نام جے ایف 17 بی تھنڈر رکھا گیا ہے اور سال رواں میں دسمبر تک یہ طیارہ تیار ہو جائے گا اور جنوری میں اس کی آزمائشی پروازیں شروع ہوں گی۔
پاکستان اگر ثابت قدمی سے اس جانب آگے بڑھتا رہا تو وہ دن بھی آسکتا ہے جب ایف 16 کے پائے کا طیارہ پاکستان کے اندر تیار ہو جائے۔کانگریس نے اگرچہ وقتی طور پر پاکستان کے لئے مشکلات کھڑی کر دی ہیں، تاہم یہ بھی عین ممکن ہے کہ امریکی انتظامیہ اس سلسلے میں پاکستان کی مدد کا کوئی راستہ نکال لے۔ وقتی طور پر تو بھارت اپنے منصوبے میں کامیاب ہے۔ واشنگٹن میں سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کی خرید ایک طویل عمل ہوتا ہے، جس کے راستے میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔ اس لئے کانگریس کے تازہ فیصلے میں پاکستان کے لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ بالآخر پاکستان کو ایف 16 طیارے مل جائیں گے، جن کی تعداد 8 ہے۔ اس وقتی ناکامی کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ واشنگٹن میں پاکستان کی زیادہ مضبوط لابی نہیں، جبکہ بھارت اس سلسلے میں بہت زیادہ فعال ہے۔ بعض سینیٹرز بھارت کی لائن پر چلتے ہیں اور کانگریس کی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں، پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی اگرچہ کافی متحرک ہیں، تاہم انہیں امریکی لابی کی حمایت جب تک حاصل نہ ہو، وہ اس طرح کے معاملات میں پاکستان کے حق میں فیصلے کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
تحریر : سید توقیر حسین