تحریر : شیخ توصیف حسین
پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم ہندوستان سے ایک دفعہ کسی جر نلسٹ نے سوال کیا کہ آ پ اپنے تعلقات کی بہتری کیلئے اور دیرنیہ مسائل کے حل کیلئے حکومت پاکستان سے بات کیوں نہیں کرتے آپس میں لڑنے جھگڑنے سے کیا تصیفہ طلب مسائل حل ہو جائیں گے ان کا اگر حل ڈھونڈنا ہے تو میز پر بیٹھو اپنی کہو اور دوسرے کی سنو تو مسائل کا حل نکل آئے گا جر نلسٹ کے اس سوال کے جواب پر پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا کہ میں کس حکومت سے بات کروں میں اتنے پا جامے نہیں بدلتا جتنی پاکستان میں حکومتیں بد لتی ہیں کیا عکاسی کی نہرو نے ہمارے سیاسی شب و روز کی حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے کہے ہوئے الفاظ آج بھی ہمارے ملک میں صادق ہیں افسوس صد افسوس کہ اس ملک جس کے حصول کی خا طر ہمارے بزرگوں نے لا تعداد قر بانیاں دیں تھیں میں اس قدر حکومتیں بد لتی ہیں کہ رات کو وہ شخص ملک کا وزیر اعظم ہو تا ہے
صبح کو قیدی بحر حال اللہ بھلا کرے ہمارے ملک کے ہر اُس سیاست دان کا جو اقتدار کے حصول کی خا طر اس ملک کو جنت کا ٹکڑا بنانے کا پلان لے کر آ تا ہے اور اپنے اس پروگرام کو اتنا کرارہ دکھاتا ہے عوام کے سامنے کہ عوام بغیر چکھے چٹخارے لینے شروع کر دیتی ہے اور اس سیاست دان کی لچھے دار تقریر کی سویٹ ڈش یوں ہی تصور میں ہی عوام سونے کی پلیٹ میں ڈال کر چاندی کے چمچے سے کھا نا شروع کر دیتی ہے اور پیاس لگنے پر مذکورہ سیاست دان کی طرف سے نکالی گئی دودھ کی نہر سے عوام جگ بغیر کسی گلاس کے بھر بھر کر پینا شروع کر دیتی ہے بس یوں ہی عوام اپنی آ نکھوں کے سامنے ایک حسین دنیا دیکھنا شروع کر دیتی ہے اور تو اور عوام اس سیاست دان کی تقریر سننے کے بعد خوابوں میں ہی اس ملک کے کسی علاقے میں اپنے لیئے پلاٹ منتخب کرنا شروع کر دیتی ہے جس علاقے کی سڑکیں سونے کی اور فٹ پاتھ چاندی کے اس خواب خرگوش سے عوام کی آ نکھ تب کھلتی ہے
جب ایک سپاہی انھیں ناکردہ جرم میں پکڑ کر غلیظ گالیاں دیتا ہوا بند حوالات کر دیتا ہے یا پھر ایک طرف سے بڑے بچے کے رونے کی آ واز آتی ہے کہ جس کا نام فیس نہ دینے کی وجہ سے سکول سے کٹ چکا ہوتا ہے یا پھر چھوٹا بچہ دودھ نہ ملنے کی وجہ سے بلک بلک کر رو رہا ہوتا ہے یا پھر بیوی آ ٹا ختم ہونے کی دہائی دے رہی ہوتی ہے یا پھر بوڑھے والدین بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر سڑکوں پر بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں یا پھر بیمار اور لاغر والدین بر وقت ادویات نہ ملنے کے سبب سسک سسک کر بے موت مر رہے ہوتے ہیں یا پھر معصوم بچے علم جیسی روشنی سے آ راستہ ہونے کے بجائے اپنے بے روزگار والدین کی معاونت کیلئے ہوٹلوں پر مزدوری کر رہے ہوتے ہیں یا پھر سہانے سپنے دکھانے والا سیاست دان جب اقتدار کی کرسی پر بیٹھتا ہے تو پاکستان کو جنت کا ٹکڑا بنانے کے بجائے سب سے پہلے اپنا اکائونٹ سوئزرلینڈ کے بنکوں میں کھلواتا ہے اور پھر ملک و قوم کی لوٹی ہوئی رقوم اس میں جمع کروانے کے بعدوہی کسی امراء علاقہ میں بے نام کوٹھی خرید کر اور اپنا سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے گرین کارڈ حاصل کر کے وہی کا ہو کر رہ جاتا ہے اللہ اللہ خیر سلا تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں اور جتنے لیڈر آئے اخبارات کی فائلیں اٹھا کر دیکھ لیں ہر نئے آنے والے سیاست دان نے بڑے دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ میرے آنے سے پہلے تمام حاکم چور تھے جو ملک کو لوٹنے میں مصروف عمل رہے جس کے نتیجہ میں ملک دیوالیہ ہو کر رہ گیا ہے
نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی یہی گھسا پٹا بیان آ رہا ہے لیکن پتہ نہیں کہ کسی لیڈر کو خداوندکریم نے توفیق کیوں نہیں دی کہ وہ سابقہ حکمرانوں کی عصمت دری کرنے کے بجائے وہ عوام کو اپنا پروگرام دے کر کہے کہ جو کچھ ہوا سو ہوا لیکن میں اب نیک نیتی سے آپ کے مفاد میں کام کروں گا سونے کی سڑکیں تو نہیں بنا سکتا ہاں البتہ بُرے حالاتوں کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کروں گا افراد کے بجائے اداروں کو مضبوط کروں گا ذاتی پسند کے بجائے اصولوں کی پاسداری کروں گا ہر ایک کو انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانے کیلئے اداروں کو آ زادی سے کام کرنے کا موقع دوں گا اور اس کے علاوہ مذید کچھ ہو سکا تو بہتری کی طرف ضرور قدم اٹھائو گا دوسری طرف عوام کو بھی ہوش کے ناخن لینے ہوں گے کہ وہ بھی عظیم ہم وطنوں کے لفظ کو سن کر چوڑا ہونے کے بجائے سنجیدگی اختیار کر نے کی کوشش کریں گھر میں آ ٹا نہیں ہوتا اور سنتے ہیں
خطاب عظیم کا اور اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے حاکمین وقت سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ ملک میں ایسی پائیدار پالیسی اپنائے جو دیرپا ہو کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب ملک دشمن عناصر کسی سکول پر حملہ کرتے ہیں تو اس وقت حاکمین وقت ملک بھر کے تمام سکولوں کے باہر سیکورٹی گارڈ ز تعنیات کرنے کے احکامات جاری کر دیتے ہیں جس کا سلسلہ چند ماہ تک چلتا ہے اور بعد ازاں دھما دھم مست قلندر بالکل اسی طرح اگر کسی پارک پر حملہ ہوتا ہے تو بعد ازاں ملک بھر کے پارکوں کی نگرانی کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور پھر دھما دھم مست قلندر بالکل اسی طرح اگر کسی علاقے میں مچھر مار سپرے کے دوران چند ایک افراد بے ہوش ہو جاتے ہیں تو پھر ضلع بھر میں مچھر مار سپرے بند کر دیا جاتا ہے جس کا واضح ثبوت ضلع جھنگ ہے جس میں عرصہ دراز سے مچھر مار سپرے کی بندش کے نتیجہ میں مچھروں کی یلغار سے لاتعداد افراد موذی امراض میں مبتلا ہو کر بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں لہذا ایسی ناقص پالیسیوں کے نتیجہ میں آپ کو شر مندگی جبکہ عوام کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا ایسی پالیسیوں کے بجائے پائیدار پالیسی اپنائے جو دیرپا ہو اے اللہ میری توقیر کو ہمیشہ سلامت رکھنا میں فرش کے سارے خدائوں سے الجھ بیٹھا ہوں
تحریر : شیخ توصیف حسین