تحریر: محمد آصف اقبال
یہ احساس کہ ہندوستان انگریز کی غلامی سے نجات پاکر ایک فلاحی اسٹیٹ کی حیثیت سے تمام اقوام کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بنے گا، ایک ایسا نظریہ تھا جس کی بنیاد پر ملک کے تمام ہی لوگوں نے بلا لحاظ مذہب و ملت جنگ آزادی میں سعی و جہد کی تھی۔لیکن جب آزادی نصیب ہوئی یا اس کے آثار نمایاں ہوئے تو ملک تقسیم کی باتیں کی جانے لگیں۔بلا آخر اپنوں یا غیروںکے تعاون سے ملک تقسیم ہوا۔ٹھیک اسی وقت ایک آواز یہ بھی آئی کہ ملک جن بنیادوں پر تقسیم کیا جا رہا ہے، وہ مناسب نہیں ہے۔دوسری طرف ملک کو غلامی سے آزادی دلانے میں ملک کی دونوں ہی اقوام ہندو مسلم ایک ساتھ سعی جہد میں مصروف تھے، اور غلام بنانے والوں نے دونوں ہی کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑرکھا تھا۔لہذا جیسے ہی ملک آزادہوا اور وہ کومن ایجنڈا مکمل ہوا،یعنی غلامی سے نجات کا ایجنڈا،ٹھیک اسی وقت یہ دو طبقات بھی الگ ہو گئے یا کروادیئے گئے۔اب ہندوستان میں اکثریت بحیثیت قوم ہندو ٹھہرے تو وہیں مسلمان اقلیت۔پھر ایک قوم، ایک مقصد،اور غلامی سے نجات میں دونوں کی سعی و جہد اور قربانیوں کی لازوال داستانیں نہیں رہیں بلکہ معاملہ اب ایک ہی ملک میں اکثریت اور اقلیت میں بدل گیا۔ اور وہ جنہوں نے قوم پرستی کے اجتماعی رویہ پر اپنی بنیاد رکھی تھی ، وہ قومی جنگ، جسے وہ بڑے جوش و خروش سے لڑ رہے تھے، جن جمہوری اصولوں پر ہندوستان کا سیاسی ارتقاجاری تھا، اور مسلمانوں نے قومی حیثیت اختیار کرتے ہوئے جن مطالبات کی فہرست تیار کی تھی،وہ پوری تصویر وقت کے ساتھ ساتھ دھندلی ہوتی گئی۔یہاں تک کہ وہ پورا پس منظر ہی غائب کیا جانے لگاکہ جس میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ایک ہی جو ش و جذبہ سے سرشار غلامی سے نجات میں سرکرداں تھے۔پھر یہ کوششیں مزید تیز ہوئیں یہاں تک کہ مسلمانوں کو اب مکمل طور پر ہی منظر نامہ سے غائب کیا جانے لگا۔اپنے ہی ملک میں آج مسلمانوں کی حیثیت صرف اقلیت کی سی ہے اور وہ بھی ایسی اقلیت جو اکثریت کی خیرات پر جینے والی ہو۔
ہندوستان کو بحیثیت ہندو اسٹیٹ بنانے کی آوازیں گرچہ پرانی نہیں ہیں۔اس کے باوجود یہ آوازیں کبھی زور سے آتی ہیں تو کبھی دھیمی بھی پڑ تی ہیں۔لیکن ان آوازوں کے مدھم اور بلند ہونے کے ساتھ ہی حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ آوازیں لگاتار جاری ہیں۔اس موقع پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ سلسلہ کیوں جاری رہا اور یہ آوازیں جو آج ایک نظریہ بن چکی ہیںکیونکرپختہ ہوئیں؟پختگی کی ایک وجہ ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم ہے۔تو وہیں تقسیم میں ہندو اکثریت والے علاقے ہندوئوں کو ملے اورمسلم اکثریتی علاقہ مسلمانوں کو ۔پھر چونکہ ہندو علاقہ ہندوستان ،مسلم علاقہ پاکستان کے بالمقابل بہت بڑا تھا،لہذا یہ آوازیں نہ صرف آوازیں رہیں بلکہ ایک نظریہ میں تبدیل ہوگئیں۔جس کا شور آج کچھ زیادہ ہی محسوس کیا جا رہا ہے۔مزید یہ کہ موجودہ حکومت اور اس حکومت میں مخصوص نظریہ اور فکر کے حاملین کی کثرت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہندوستان کو ایک ہندواسٹیٹ بننا چاہیے۔اور یہ ان لوگوں کی خواہش ہے جوجو برسوں سے نظریہ کے فروغ میں رنگ بھرنے کے لیے اپنی زندگیوں تک کو وقف کر چکے ہیں۔لہذا یہ ایک فطری خواہش ہے جن کا آسرا موجودہ حکومت ہے۔اُنہیں امید ہے کہ یہ حکومت نہ صرف اس نظریہ کو فروغ دے گی بلکہ بڑی حد تک تعاون بھی کرے گی۔پھر ساتھ ہی اقلیتوں کو ایک طے شدہ حد تک سمیٹ کر رکھ دینا،ان کے اختیارات کو محدود کرنا یا ان کو اقلیت کے زمرے سے ہی خارج کرنا،وغیرہ جیسے معاملات بھی آگے بڑھیں گے۔ممکن ہے اسی بنا پر کسی نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اقلیتوں کو آبادی کے کون سے تناسب کے بعد اقلیت کے زمرے سے ہٹایا جانا ممکن ہے؟توجہ فرمائیے یہ سوال معصومانہ سوال نہیں تھا،بلکہ یہ سوال کل پھر اٹھایا جائے گا،اورمزید قوت کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اس معمولی سوال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ملک جس جانب تیزی سے گامزن ہے،ساتھ ہی مخصوص نظریہ و فکر اورمقصد سے وابستگی رکھنے والوں کے حوصلہ کس درجہ بلند ہوا چاہتے ہیں۔
دوسری طرف یہ بات بھی مسلمانان ہند کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح وہ بے فکری ، غیر ذمہ دارانہ رویہ اور لاشعوری کی زندگی سے دوچار ہیں، ان حالات میں اگر کل ملک کے ہندو جو اکثریت میںہیں،ہندوستان کو ہندو اسٹیٹ بنانا چاہیں،تو پھر کوئی نہیں جو انہیںاس فیصلہ سے روک سکے گا۔اور اگر ایسا ہوا ،جو گرچہ ایک مفروضہ ہی صحیح ،تو پھر اقلیت کی جداگانہ قومیت اور مخصوص قومی مطالبات کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی۔کیونکہ ایک قومی اسٹیٹ مخصوص قومیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے مطالبات پورے نہیں کرتی،بلکہ وہ تو یہ کوشش کرتی ہے کہ اسے تحلیل کرکے اپنے اندر ہضم کر لے،یا پھر اگر وہ اپنی شناخت برقرار رکھنے کی کوشش کرے تو سختی سے پیش آتے ہوئے دبا دیا جائے یا اسے باقاعدہ فنا ہی کردیا جائے۔واقعہ کے برخلاف مسلمان کہیں نیشنلسٹ تو کہیں کمیونسٹ پہچان بنانے میں سرگرم ہیں۔ٹھیک اسی طرح جس طرح انگریزی دور میں خان بہادر طبقہ اپنی حیثیت اور شناخت قائم کر چکا تھا۔اب اگر وہ قوم جس کی ایک بڑی تعداد پہلے مسٹر اور مس بن چکی ہے،آج اگر وہ مہاشے اور شریمتیاں بن گئیں ،تو یہ کچھ نیا نہیں ہے۔لیکن توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ معاملہ اگر زبان کی حد تک ہوتا،اور الفاظ کو زبانوں میں ہی بدلا گیا ہوتا،تو کچھ فرق نہیں پڑتا تھالیکن اگر ان کی معاشرت،خیالات اور انفرادی و اجتماعی طرز عمل ہی تبدیلی ہوچکا ہویا جاری ہو ،تو یہ صورتحال تشویشناک ہے۔لہذا جس حالت سے وہ دوچار ہیں کوئی دوسرا نہیں نکال سکتا۔اور ویسے بھی کسی دیگر فکر و نظر کے ہمنواکو کیا دلچسپی کہ وہ مسلمانوں کو زوال سے نکالے ؟انہیں توخود ہی اپنی صورتحال پر غور و خوض کرنا ہوگا۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ زوال جس میں مسلمانان ہند آج مبتلا ہیں،اس سے نکلنے کا کیا راستہ ہے؟جواب میں تین صورتوں پر غور کیا جاسکتا ہے،جو پہلے بھی بیان کیے جا چکے ہیں۔ایک یہ کہ نیشنلسٹ،کمیونسٹ اور نہ جانے کن کن ناموں سے اپنی شناخت بنانے والے مسلمان،اپنی سابقہ روش وپالیسی پر قائم رہتے ہوئے ہندو قومیت میں جذب ہونے پر تیار ہو جائیں۔دوسرے یہ کہ مسلم قوم پرستی کی موجودہ روش پر بدستور چلتے رہیں یہاں تک کہ مٹ جائیں۔اور تیسرے یہ کہ قوم پرستی اور اس کے طور طریقوں اور اس کے دعوئوں اور مطالبوں سے توبہ کرکے اسلام کی رہنمائی قبول کرلیں،جس کا تقاضہ ہے کہ مسلمان اپنی قومی اغراض کے لیے سعی و جہد کرنے کی بجائے اپنی تمام کوششوں کو صرف اسلام کی اصولی دعوت پر مرکوز کردیں اور من حیثیت القوم اپنے اخلاق، اعمال اور اجتماعی زندگی میں اس کی شہادت دیں جس سے دنیا یقین کر سکے کہ فی الواقع یہ وہ قوم ہے جو اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ محض دنیا کی اصلاح کے لیے جینے والی ہے اور درحقیقت جن اصولوں کو یہ پیش کررہی ہے وہ انسانی زندگی کو انفرادی اور اجتماعی طور پر نہایت اعلیٰ و ارفع بنادینے والے ہیں۔
یہ وہ دور ہے جس میں مسلمان آزادی تا حال سارے تجربات کرکے دیکھ چکے ہیں۔کبھی کمنسٹوں کی طرف لپکے،کبھی نیشنلسٹوں کی طرف اور کبھی دیگر آسرائوں پر اپنے گھٹنے اور سرٹیکے۔لیکن یہ تاریخ نہیں ہے بلکہ کل ہی کی بات کہ ویسٹ بنگال، جس میں تقریباً 30فیصد مسلمان آباد ہے،وہاں مسلمان معاشی، معاشرتی، تعلیمی اور روزگار جیسے اہم محاظ پر حد درجہ پسماندگی کا شکار ہوئے اور ہیں۔اور وہ سارے افکار و نظریات اور ان سے وابستہ تحریکات جن کی گفتگو کا آغاز تا اختتام ہی پسماندہ، کمزوروں ، ضرورتمندں اور محنت کش طبقہ کی آواز بلند کرنے میں صرف تھی،مسلمانوں کی ترقی و فلاح و بہبود میں کسی بھی درجہ مددگار نہ ثابت ہوئی۔اسی طرح دیگر مقامات جس میں اہم ترین اتر پردیش و اطراف کی ریاستیں ہیں،نیشلسٹوں، سوشسلٹوں اور نہ جانے کن کن ناموں سے اپنی ہی زبان سے تعریفیں بیان کرنے والوں نے مسلمانوں کو ہر سطح پر نقصان پہنچایا ۔لیکن غور سے دیکھا جائے تو محسوس ہوگا کہ معاملہ صرف مسلمانوں کی حد تک ہی خراب نہیں ہے۔بلکہ وہ جو خود کو اکثریت سمجھتے یا انہیں سمجھایا جاتا ہے،وہاں بھی قدیم طبقاتی کشمکش جاری ہے،جو کسی بھی طرح ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی،اور ان کی ٹھیک وہی حالت زار برقرار ہے جو کل یعنی آزادی سے پہلے بھی تھی۔
معلوم ہوا کہ موجودہ جمہوریت اور ظاہری مساوات صرف فریب نظر اور دھوکہ کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی وہی بے انصافیاںبدستور جاری ہیںجو کل تھیںساتھ ہی وہ ناہمواریاں اور تفریقیں بھی برقرار ہیں جوآزادی سے قبل پائی جاتی تھیں۔پھر اہم سوال یہ بھی اٹھنا چاہیے کہ آزادی نے ہندوستان کے ہندوئوں اور مسلمانوںیا دوسرے الفاظ میںملک کی اکثریت اور اقلیت کو کیا دیا؟اس موقع پر مسلمانوں ،ملک عزیز ہند میں اپنی حیثیت لازماً سمجھنا ہوگی۔اور یہ بات بھی خوب اچھی طرح سمجھنا ہوگی کہ بحیثیت مسلمان ان پر جو ذمہ داریاں عائد ہیں اور جن فرائض میں اللہ تعالیٰ نے ان کو باند ھ کر رکھا ہے،اس سے چھٹکارا اور نجات کسی حال میں نہیں ہے۔ہاں اگر وہ موجودہ حالات میں قیام عدل اور نا انصافیوں کے خلاف اٹھیں،ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا عزم مصمم کریں اور ایک منصوبہ بند سعی و جہد کے ساتھ کوششوں کا آغاز کریں تو وہ دن دور نہیں جبکہ وہی دوسروں کے دکھ درد کا سہارا بنیں گے ساتھ ہی اپنی پریشانیوں کا بھی مداوا کر سکیںگے۔کام کا آغاز قول و عمل کے مظاہرے کے ساتھ ہونا چاہیے اور کام کا آغاز اس مقام سے کیا جائیجہاں وہ خود رہتے بستے ہیں۔پھریہی اخلاص پر مبنی سعی و جہدان کے وجود اور شناخت کو برقرار رکھنے کا بھی ذریعہ بن جائے گی(انشااللہ)!
تحریر: محمد آصف اقبال
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com