تحریر : حذیفہ یمان
آر ایس ایس کی سرمایہ کاری بالآخر رنگ لے آئی ہے۔2014ء میں ہونے والے بھارتی انتخابات میں راشٹریہ سیوک سنگھ اور دیگر ہندو انتہاپسند جماعتوں نے خوب سرمایہ کاری کی اور نریندرا مودی کو منتخب کروانے میں اپنا کردار اداکیا۔ہندوتوا کے ایجنڈے پرانتخابات لڑے گئے اور مودی کو جتوانے کے لیے ہرطرح کے جتن کیے گئے۔ مسلمانوںاور پاکستان کے مخالف بیانات داغے گئے اور گجرات کی مسلم کشی کے نمونے کو پورے بھارت میں نافذ کرنے کے دعوے ہوئے، چنانچہ پورے بھارت میں ہندو ووٹ کو متحد کیا گیا۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق انتخابی برقی مشینوں کے ذریعے بھی دھاندلی سننے میں آئی،جو بی جے پی کے انجینئروں کاہی منصوبہ ہے۔ جن حلقوں میں فرقہ پرست پارٹی کو اپنی جیت کی امید خود بھی نہیں تھی،وہاں بی جے پی نے اکثریتی ووٹ حاصل کیے۔ بنارس کے حلقے ورانسی میں جعلی ووٹوں کی کثیر تعداد کاانکشاف اور اس پر بھارتی الیکشن کمیشن کی لیپا پوتی غیرتسلی بخش ہے۔ ووٹنگ مشین کی خرابی کے بہت زیادہ واقعات کے پس منظر کاجائزہ لیاجائے تومشینوں میں گڑبڑکرکے اور کسی بھی بٹن دبانے کی صورت میں ووٹ بی جے پی کو جانے کے انتظامات اورانتخابی مہم پربے دریغ پیسہ بہاکر ہندو توا کے ایجنڈے کوکامیاب کروانا مقصود تھا۔ یہ سب اس لیے تھاجس کے نتائج آج ہمیں بھارت میں نظر آ رہے ہیں۔بی جے پی کے برسراقتدار آتے ہی تمام انتہاپسند تنظیموں نے پرپرزے نکالنے شروع کردیے۔ ہرایک کو گویا کھلی چھوٹ مل گئی ۔راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS)ان سب سے آگے تھی کہ اب اس کادیرینہ ایجنڈا پورا ہونے کی امید نظر آنے لگی تھی۔ چنانچہ بھارت کو ہندو توا بنانے کے لیے طرح طرح کے بیانات اور حرکتیں سامنے آنے لگیں۔ کبھی فجرکی اذان پرپابندی کی صدا سنائی دی اور کبھی نریندر مودی کی حمایت نہ کرنے والوں کو بھارت سے نکل جانے کی دھمکیاں دی گئیں۔ یوں بھارت میں مقیم اقلیتوں کو جی بھرکر ہراساں کیاگیا۔
حالیہ دنوں میں ان بھارتی تنظیموں کی جانب سے ایک نیا شوشہ سامنے آیاہے۔ ہندومذہب میں اسلام یا عیسائیت کی مانند تبلیغ کاکوئی تصور نہیں ہے اور کسی غیر ہندو کو ہندو بنانے کاکوئی طریقہ کار ہندو مت میں متعین نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف اسلام بھارت میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔انتہاپسند ہندؤوں کو یہ خطرہ ہے کہ اگر اسی طرح بھارت میں اسلام ترقی کرتارہااور مسلمانوں کی تعداد ہندؤوں کے مقابلے میں بڑھتی رہی تو جلد مسلمان اقلیت نہیں رہیں گے اوریہاں پر دوبارہ مسلمانوں کی حکومت آجائے گی۔ چنانچہ اسی سلسلے میں ہندو انتہاپسند رہنماؤں کی طرف سے ہندو عورتوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین بھی زور وشور سے کی جا رہی ہے۔ آرایس ایس کے رہنما، جن میں عورت اور مرد دونوں شامل ہیں،انھوں نے ہندو عورتوں پر زور دیا ہے کہ وہ کم ازکم پانچ بچے پیدا کریں تاکہ ہندو اکثریت کو قائم رکھا جاسکے۔ اس کے علاوہ مزید ایک حربہ بھی اختیار کیا گیا کہ غریب مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایاجائے اور اس مہم کو گھر واپسی کا نام دیاگیا۔ہندو انتہاپسند تنظیموں نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ بھارت میں موجود تمام مسلمان اور عیسائی پہلے ہندو تھے۔انہیں مسلمان حکمرانوں اور انگریزوں نے زبردستی مسلمان اور عیسائی بنایاتھا۔ چنانچہ اب ان کو ان کے اصل مذہب پر واپس لایاجارہا ہے، اسی لیے اس مہم کو گھر واپسی کانام دیاگیاہے۔
ایک بات یاد رہے کہ یہ مہم بھارت میں پہلی مرتبہ نہیں شروع کی گئی بلکہ اس سے پہلے بھی متحدہ ہندوستان میں شدھی اور سنگھٹن نامی تحریکوں کے نام پر اسی طرز کی مذموم حرکات کرنے کی پوری کوشش کی گئی تھی۔ شدھی کے تحت مسلمان اور عیسائیوں کو ہندوبنایاجاتاتھا اوربقول ہندؤوں کے انہیں پاک کیاجاتاتھاجبکہ جولوگ شدھی ہونے سے انکار کرتے تھے،انہیں سنگھٹن تحریک کی بھینٹ چڑھایا جاتا تھا، یعنی قتل کردیاجاتاتھا۔ یوں متحدہ ہندوستان میں بھی ہزاروں مسلمانوں کوموت کے گھاٹ اتاراگیاتھا۔ اس تحریک کا مرکزہندوستان کاعلاقہ میوات تھا جہاں بہت سے مسلمانوں کو ہندو بنایاگیااور بہت سوں کو قتل کر دیاگیا تھا۔اب ہندؤوں نے اسی تحریک کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ اوّل اعلان تو یہ کیاگیا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنایاجائے گا۔بعدازاں ہندؤوں سے چندے کی بھی اپیل کی گئی کہ گھر واپسی مہم کے لیے چندہ دیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ہندو بنایا جاسکے۔ اس معاملے میں جو اعلان کیاگیا وہ کچھ یوں تھا کہ ایک عیسائی کو ہندو بنانے پر دولاکھ جبکہ ایک مسلمان کو ہندو بنانے پرپانچ لاکھ روپے کا خرچ آتاہے۔ اگرآبادی کے تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمان عیسائیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔
انتہاپسند ہندورہنماساکشی مہاراج نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ میں مذہب کی تبدیلی پرپابند ی کا بل پیش کیاجائے۔جوہندو ہے ،وہ ہندو رہے گا اورجومسلمان ہے، وہ مسلمان رہے گا۔البتہ جب تک یہ بل پاس نہیں ہوتا وہ ”بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست” پر لانے کافریضہ سرانجام دیتے رہیں گے۔ یہ بل بھی اسی خطرے کے پیش نظر ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو قابو میں کیاجاسکے اور ہندؤوں کواسلام قبول کرنے سے روکا جاسکے۔ حالیہ گھر واپسی مہم کاشکار ویدنگربستی کے مسلمان بنے ہیں۔ان مسلمانوں میںاکثریت غریب لوگوں کی ہے۔ بھارتی انتہاپسندتنظیموں کی طرف سے دعویٰ کیا گیا کہ اس تقریب میں موجوددو سومسلمانوں نے ہندو مذہب کوقبول کرلیاہے اور وہ دوبارہ ہندو بن گئے ہیں۔ اس بات کااعلان میڈیاکے سامنے کیاگیااور ان مسلمانوں نے ہندو مذہبی رسومات بھی اداکیں۔ بعدازاں ایک ہندومورتی کے ساتھ ان مسلمانوں کی تصویریں بھی بنائی گئیں۔ یہ خبرجیسے ہی میڈیاپرعام ہوئی تو ہندوستان بھرکے مسلمانوں میں تشویش کی لہردوڑگئی۔ یہ بات قابل ہضم نہ تھی کہ اسلام جیسے سچے اور صاف ستھرے دین کو چھوڑ کر کوئی” غلیظ ہندو” مذہب کوبھی اختیارکر سکتا ہے؟ مسلمان اپناعقیدہ نہیں بدل سکتے چنانچہ اس معاملے کی تحقیقات کاآغاز ہوا اور اس سارے معاملے کی قلعی کھل گئی۔ آرایس ایس کے مطابق ان ہندو بننے والوں کو خبراس وقت ہوئی جب ان کاایک شخص قریب کی دکان سے راشن لینے گیاتو دکاندار نے اسے راشن دینے سے انکار کردیا۔دکاندار نے انہیں بتایا کہ وہ ہندو ہوچکے ہیں، اس لیے انہیں راشن دینے سے انکار کردیا۔
اس بات پر وہ شخص روتا پیٹتا بستی میں واپس آگیااور بستی کے تمام لوگوں میں اس بات پرسوگ کی فضا چھاگئی۔ بستی کے لوگوں کاکہناتھا کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہواہے۔ انہیں تواس بات کا علم ہی نہ تھا کہ انہیں ہندو بنایاجارہاہے۔ بستی کی رہائشی منیرابیگم کاکہناتھا کہ ان کے پاس کچھ ہندو لوگ آئے اور کہاکہ تم لوگ اپنے نئے کپڑے پہن کر فلاں جگہ آجانا ،تم سب کو راشن کارڈاوربی بی ایل کارڈ ملیں گے۔ منیرہ بیگم کاکہناتھا کہ وہ سب اس لیے وہاں چلے گئے۔ وہاں جو رسومات ہوئیں،انھوں نے یہ سمجھا کہ وہ اپنی کوئی رسومات کررہے ہیں۔چنانچہ وہ خاموشی سے بیٹھے رہے۔ راشن کارڈ اور دیگر سہولیات کے لالچ میں،جو ان سے کہاگیا انھوں نے کیا۔مثلاً ماتھے پر تلک لگوانااور آگ میں گھی ڈلواناوغیرہ۔ اسی بستی کے رمضان شیخ کہتے ہیں کہ جاتے جاتے ان لیڈروں نے کہا کہ اب تم ہندو ہوگئے ہو۔ انھوں نے ہمارے ہاتھ میں ایک مورتی دے کر اس کی تصویر بھی لی،پھروہ چلے گئے۔ وہ مورتی توہم نے پاس ہی نائی کے گھر رکھوادی۔رمضان کہتے ہیں کہ وہ سب اب بھی مسلمان ہیں اور اپنے مذہب کے پابندہیں۔ہم سب کو بیوقوف بنایا گیا۔ اس خبرکے عام ہوتے ہی بھارت کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں زبردست ہنگامہ برپاہواہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھارت سرکار سے مطالبہ کیاہے کہ بھارت سرکاراس معاملے پراپنامؤقف واضح کرے۔ واضح رہے کہ نریندرمودی نے ابھی تک اس معاملے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے۔
حزب اختلاف کی تمام جماعتوں نے اس بات کاالزام لگایا ہے کہ مودی سرکار نے جان بوجھ کر اس معاملے میں خاموشی اختیار کررکھی ہے اور آر ایس ایس جیسی تنظیموں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جبکہ بھارت سرکار نے تاحال اس معاملے پراپناکوئی مؤقف واضح نہیں کیا۔ نریندرامودی پرحزب اختلاف کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات میں بہت حدتک صداقت ہے۔ اس کی وجہ ہے کہ نریندرا مودی خود ایک انتہا پسند ہندو ہے اور جیساکہ ہم نے آغاز میں ذکر کیاکہ وہ آر ایس ایس کی سرمایہ کاری ہی کے نتیجے میں وزیراعظم بناہے،چنانچہ وہ ان معاملات پرزبان کھولنے کی جرأت بھی کیسے کر سکتا ہے؟ بلکہ وہ تووہیں بھاگوت کے دیرینہ خواب بھارت کو ہندو توا بنانے کے لیے اپنی پوری توانائیاں صرف کررہا ہے، لیکن بھارت سرکار ایک بات یادرکھے کہ ان اوچھی حرکتوں سے اسلام کو بھارت سے بے دخل نہیں کیاجاسکتا۔بلکہ اسلام ہی اس بھارت کامستقبل ہے۔ یہ بات ہادی برحق حضرت محمدeکی زبان سے اس حدیث کی مد میں ہے کہ جس میں بھارت سے غزوہ کرنے والوں کو جنت کی نوید سنائی گئی ہے۔ حدیث کچھ یوں ہے: قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِی أَحْرَزَہُمَا اللَّہُ مِنْ النَّارِ عِصَابَة تَغْزُو الْہِنْدَ وَعِصَابَة تَکُونُ مَعَ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ عَلَیْہِمَا السَّلَام۔(صحیح ابن حبان) چنانچہ امت محمدیہeکے نوجوان ہر صورت اس بھارت پرپرچم لہراکر رہیں گے۔ البتہ ہندوانتہا پسند تنظیموں کی جانب سے ایسے اوچھے ہتھکنڈوں کے باعث یہ مرحلہ جلد ہی آجائے گا اوربھارت کے مسلمانوں کی بھی بیداری کاباعث بنے گا۔ا ن شاء اللہ
تحریر : حذیفہ یمان